Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا انڈیا تاریخ کے نئے تجربے سے گزر رہا ہے؟

ہمیں ماضی کے اندھیروں سے نکل کر حال کی روشنی میں آنا ہوگا (فائل فوٹو)
انڈیا میں بین المذاہب ہم آہنگی تاریخ کے ہر دور میں رہی ہے۔ مسلمانوں نے یہاں تقریباً آٹھ سو سال حکومت کی اور انھو ں نے ایک ایسا سماجی ماحول بنائے رکھا جس میں ہر شخص کو اپنے مذہبی معتقدات کے مطابق زندگی گذارنے کی آزادی رہی۔
یہ کہنا تھا مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے سابق وائس چانسلر اور پدم شری ایوارڈ یافتہ پروفیسر اختر الواسع کا اردونیوز کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے۔
پروفیسر اختر الواسع کا کہنا تھا’ اگر مسلمانوں کے دور حکومت میں انہوں ایسا کیا تو چنداں تعجب کی بات نہیں تھی۔ اس لیے کہ وہ جس مذہب کے پیروکار تھے اس کی کتاب ہدایت قرآن کریم میں واضح طور پر کہہ دیا گیا تھا کہ ’لا اکراہ فی الدین‘ یعنی مذہب میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ یا پھر یہ بھی کہا گیا کہ’ لکم دینکم و لی دین‘ تمھارا دین تمھارے لیے ہے اور میرا دین میرے لیے۔‘
آٹھ سو سال حکومت کے باوجود مسلمان اقلیت میں ہی رہے
’اس لیے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ایک ہزار سال تک رہنے اور خاص طور سے آٹھ سو سال تک بر سر اقتدار رہنے کے باوجود بھی مسلمان اقلیت ہی میں رہے۔‘
ایک سوال پر انہوں نے کہا’آج انڈیا میں جو عدم رواداری اور عدم برداشت کا کلچر مختلف مذاہب کے بیچ دیکھا جارہا ہے تو یہ تکلیف دہ بھی ہے اور افسوس ناک بھی۔ اس کی ایک وجہ ان کے مطابق خود انڈیا میں بعض طبقات کا ’مذہبی جنون‘ ہے جو هم آہنگی نہیں چاہتے۔‘
’ایک افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے چاہے بظاہر کتنے ہی قریب آ گئے ہوں لیکن ذہنی اور قلبی اعتبار سے ایک دوسرے سے دوریاں بڑھی ہیں۔‘
ان کا ماننا تھا ’ان دوریوں کو قربتوں میں بدلنے کے لیے جو کوششں ہونی چاہیے وہ نہیں ہو رہی ہے۔‘

یہ زمانہ جس میں ہم جی رہے ہیں وہ نہ مجادلے کا ہے اور نہ مناظرے کا بلکہ مکالمے کا ہے(فوٹو: عرب نیوز)

انہوں نے مثال دی کہ’ ہم یہ بھول رہے ہیں کہ یہ زمانہ جس میں ہم جی رہے ہیں وہ نہ مجادلے کا ہے اور نہ مناظرے کا بلکہ مکالمے کا ہے اور ایک بہتر مثبت اور متحرک مکالمہ ہی ایک دوسرے کو قریب لا سکتا ہے۔‘
تاریخ کے لایعنی بوجھ کو ڈھونے کے ضرورت نہیں
’دوسرے یہ کہ ہمیں ماضی کے اندھیروں سے نکل کر حال کی روشنی میں آنا ہوگا اور یہ سمجھنا ہوگا کہ ماضی میں سب کچھ یاد رکھنے کے قابل نہیں ہوتا۔‘
’تیسرے یہ کہ ہمیں تاریخ کے لایعنی اور بے معنی بوجھ کو ڈھونے کے ضرورت نہیں ہے اور اس سے اپنے کو بچانا چاہیے۔‘
پدم شری ایوارڈ یافتہ پروفیسر اختر الواسع نے کہا ’تاریخ میں یقیناً بعض ایسے واقعات دانستہ یا نا دانستہ طور پر سر زد ہوئے ہوں گے جن کی بازگشت آج ہمارے لیے پریشانی کا سبب ہو سکتی ہے اور کچھ سیاست دان اس کا اپنے مفاد کے لیے غلط استعمال کر سکتے ہیں۔‘
لیکن ہمیں سیاست سے اوپر اٹھ کر ایسی تمام چیزوں سے برأت کا اظہار کرنے میں کوئی تکلف نہیں ہونا چاہیےاور دوسروں کو بھی ان کو اب فراخ دلی کے ساتھ بھلا دینا چاہیے۔‘

خیر سگالی اور باہمی اتحاد کے بغیر کوئی ملک اور معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا

اس سوال پرکہ کیا میڈیا خصوصا سوشل میڈیا کا بھی عدم برداشت اور نفرت کو فروغ دینے میں کردار ہے۔
سیکولر جمہوریت میں مسلمان برابر کے شریک ہیں
پروفیسر اختر الواسع نے کہا ’ایک ایسی دنیا میں جو عالمی گاؤں بن چکی ہے، مسلمانوں کو وہ تمام کچھ مسلم اکثریتی ملکوں اور معاشروں میں غیر مسلم اقلیتوں کو دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے جوکہ وہ خود غیر مسلم اقلیتی ملکوں اور معاشروں میں اپنے لیے چاہتے ہیں۔‘
’سوشل میڈیا متنازعہ معاملات کو اجاگر کرنے میں اپنا جیسا رول ادا کر رہا ہے لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیےکہ سارا سوشل میڈیا ایک سا نہیں۔ اس میں دیانت اور متانت کے ساتھ حقائق کو پیش کرنے والے بھی ہیں۔ ہمیں ان کا ساتھ دینا بھی چاہیے اور لینا بھی ہے۔‘
ان کے مطابق’ جہاں تک انڈیا کا سوال ہے یہاں مسلمان تاریخ میں ایک نئے تجربے سے گذر رہے ہیں، وہ نہ حاکم ہیں نہ محکوم بلکہ سیکولر جمہوریت میں برابر کے شریک ہیں۔‘

دوریوں کو قربتوں میں بدلنے کے لیے جو کوششں ہونی چاہیے وہ نہیں ہو رہیں (فوٹو: عرب نیوز)

خیر سگالی اورباہمی اتحاد کے بغیر کوئی ملک  ترقی نہیں کر سکتا
’یہ ٹھیک ہے کہ انہیں بھی مسائل در پیش ہیں لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان مسائل کے حل کے لیے انڈیا کے غیر مسلموں کی بڑی تعداد آگے آ جاتی ہے اورمسائل و مصائب دنیا بھر میں صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ دنیا میں کون سا ایسا مذہبی گروہ ہے جو ان سے دوچار نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا ’اب ہمیں مل کر ان کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، ایک دوسرے پر انحصار کے لیے مجبور ہیں۔ اس لیے سیاست اور سیاسی تقاضوں سے ما ورا ہو کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے سر گرم عمل ہو جا نا چاہیے۔‘
’یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ خیر سگالی اورباہمی اتحاد کے بغیر کوئی ملک اور معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔‘

شیئر: