شاہد خاقان کی عدم موجودگی: مری میں ن لیگ کا جلسہ کامیاب ہو پائے گا؟
شاہد خاقان کی عدم موجودگی: مری میں ن لیگ کا جلسہ کامیاب ہو پائے گا؟
اتوار 4 فروری 2024 17:58
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
ن لیگ نے حلقہ این اے 51 سے راجہ اسامہ اشفاق سرور کو قومی اسمبلی کی نشست پر ٹکٹ دیا (فوٹو: فیس بک)
پاکستان مسلم لیگ ن دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح عام انتخابات 2024 کی مناسبت سے وووٹرز کو رام کرنے میں مصروف ہے۔ ن لیگ کی الیکشن مہم بھی اختتامی مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔
مسلم لیگ نے این اے 51 مری میں کل پیر کو عوامی طاقت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ ن شاہد خاقان عباسی کی عدم موجودگی اور حلقہ این اے 51 میں پارٹی کے اندر موجود اختلافات کے باوجود کیا کامیاب جلسہ کر پائے گی؟
قائد پاکستان مسلم لیگ ن مری جلسے میں خصوصی شرکت کر رہے ہیں۔ پارٹی کی نائب صدر مریم نواز بھی میاں نواز شریف کے ہمراہ ہوں گی۔
این اے 51 میں لیگی امیدوار راجہ اسامہ اشفاق سرور کی مری الیکشن مہم کے آخری جلسے میں شرکت کے لیے نواز شریف اور مریم نواز آج اتوار کو مری پہنچ چُکے ہیں۔ اُن کے ہمراہ پارٹی کی سینئیر قیادت بھی موجود ہے۔ مری کی مقامی قیادت نے نواز شریف اور مریم نواز کی مری آمد پر استقبال کیا ہے۔ میاں نواز شریف اس وقت مری میں موجود اپنی رہائش گاہ کشمیر پوائنٹ پر قیام پزیر ہیں۔
مسلم لیگ ن اور مری کا تاریخی پس منظر
مسلم لیگ ن کو اپنی سیاسی سرگرمیوں کے آغاز سے ہی مری میں اپنا ووٹ بینک مل گیا تھا اور اس کی سب سے بڑی وجہ اُس وقت کے لیگی رہنما سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے والد محمد خاقان عباسی (مرحوم) تھے۔
خاقان عباسی کا شمار نہ صرف نواز شریف کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا بلکہ مؤرخین یہ بھی لکھتے ہیں کہ نواز شریف کو سیاست میں لانے کا سہرا بھی انہی کے سر جاتا ہے۔
محمد خاقان عباسی نے 80 کی دہائی میں اسی حلقے سے الیکشن میں حصہ لیا اور کامیابی سمیٹی۔ وہ ضیاالحق کے دور حکومت میں 1985 میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات میں پہلی بار کامیاب ہو کر قومی اسمبلی پہنچے تھے۔
شاہد خاقان عباسی اور مسلم لیگ ن کا ساتھ
10 اپریل 1988 کو سانحہ اوجڑی کیمپ محمد خاقان عباسی کی شہادت کے بعد اُن کے اُس وقت کے جوان سال بیٹے شاہد خاقان عباسی نے حلقے کی سیاست سنبھالی اور الیکشن لڑنا شروع کیا۔
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی 1988 سے 2013 تک حلقہ این اے 51 سے الیکشن جیتتے رہے۔ اس سارے عرصے میں شاہد خاقان عباسی کو صرف ایک بار شکست کا سامنا کرنا پڑا جب 2002 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار غلام مرتضیٰ ستی کامیاب ٹھہرے تھے۔
شاہد خاقان عباسی کے مسلم لیگ ن سے دور کیوں ہوئے؟
نواز شریف کے دیرینہ ساتھی سمجھے جانے والے شاہد خاقان عباسی اور لیگی قیادت کے درمیان اختلافات کی خبریں سال 2023 کے آغاز سے ہی آنا شروع ہو گئیں تھیں۔ شاہد خاقان عباسی نے میڈیا کو متعدد بار آگاہ کیا ہے کہ وہ ن لیگ کے اس سیاسی طرز عمل سے اتفاق نہیں کرتے۔
میاں نواز شریف کی عدم موجودگی کے دوران مریم نواز کی جانب سے پارٹی کی بھاگ ڈور سنبھالنا بھی شاہد خاقان عباسی اور ن لیگ میں دوریوں کی ایک وجہ بنا۔ شاہد خاقان عباسی نے اس بات پر تبصرہ کرتے کہا تھا کہ مسلم لیگ ن کے اندر اور بھی بہت سے قابل لوگ موجود ہیں۔
عام انتخابات 2024 سے کچھ عرصہ قبل شاہد خاقان عباسی اور مسلم لیگ ن میں اختلاف اُس وقت مزید کھل کر سامنے آئے جب انہوں نے شہباز شریف کی قیادت میں پی ڈی ایم حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
میاں نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے شاہد خاقان عباسی نے ایک بیان دیا کہ ’میں کسی کے استقبال کا قائل نہیں ہوں۔ ن لیگی قائد کی واپسی کے حوالے سے کی گئی مشاورت میں بھی شامل نہیں تھا۔‘
اس کے علاوہ نواز شریف کی پاکستان واپسی کے بعد شاہد خاقان عباسی اور نواز شریف کے درمیان کوئی ملاقات بھی نہ ہوئی۔ شاہد خاقان عباسی نے ایک اور بیان میں یہ کہا کہ ’مجھے نہ کسی نے ملاقات کے لیے بلایا اور نہ میں خود گیا ہوں۔‘
شاہد خاقان عباسی کا ن لیگ کے نامزد امیدوار کی حمایت نہ کرنے کا اعلان
پاکستان مسلم لیگ ن حلقہ این اے 51 سے نوجوان سیاستدان راجہ اسامہ اشفاق سرور کو قومی اسمبلی کی نشست پر ٹکٹ دیا ہے۔ 90 کی دہائی سے 2024 تک یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ عام انتخابات میں اس حلقے سے شاہد خاقان عباسی الیکشن نہیں لڑ رہے۔
شاہد خاقان عباسی نے لیگی امیدوار راجہ اسامہ اشفاق سرور کو ٹکٹ دینے کے معاملے پر گفتگو میں یہ کہا تھا انہیں کوئی سروکار نہیں کہ ن لیگ نے ٹکٹ کسے دیا ہے۔ تاہم وہ ن لیگ کے امیدوار کی حمایت نہیں کریں گے۔
حلقہ این اے 51 میں ن لیگ کے اندر اختلافات کیا ہیں؟
عام انتخابات 2024 میں مسلم لیگ ن کو نہ صرف شاہد خاقان عباسی کی حمایت حاصل نہیں ہو گی بلکہ ساتھ میں پارٹی کے اندرونی اختلافات بھی حلقے کی سیاست پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔
ن لیگ کے نامزد امیدوار راجہ اسامہ اشفاق سرور کے چچا راجہ عتیق سرور، جن کے حلقے کے اندر اپنے حمایتی بھی موجود ہیں، وہ خود کو ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے پارٹی سے سخت ناراض ہیں۔
راجہ عتیق سرور ٹکٹ ملنے سے قبل پنجاب اسمبلی کی نشست پر اپنی نامزدگی کے لیے پر اُمید تھے مگر پارٹی قیادت نے اُن کے بجائے بلال یامین ستی کو پی پی 06 سے ٹکٹ دیا۔ جس کے بعد راجہ عتیق سرور دونوں نشستوں پر پارٹی فیصلے کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔
راجہ عتیق سرور اپنے حمایتیوں سمیت صوبائی اسمبلی کی نشست پر لیگی امیدوار کی مخالفت کر رہے ہیں جبکہ قومی اسمبلی کی نشست پر انہوں نے اپنی پوزیشن صحیح طرح واضح نہیں کی۔
لوگ نواز شریف کو دیکھنے آئیں گے شاہد خاقان عباسی کو نہیں: طاہرہ اورنگزیب
سینیئر لیگی رہنما اور ترجمان پاکستان مسلم لیگ ن مریم اورنگزیب کی والدہ طاہرہ اورنگزیب جن کا تعلق بھی مری سے ہے۔ انہوں نے اردو نیوز بتایا کہ مری میں کل کا تاریخی جلسہ ہو گا۔ لوگ جلسے میں میاں نواز شریف کو دیکھنے آتے ہیں شاہد خاقان عباسی کو نہیں۔
نواز شریف نے شاہد خاقان عباسی کو عزت دی: لیگی رہنما
طاہرہ اورنگزیب نے اردو نیوز سے گفتگو میں مزید کہا کہ نواز شریف نے شاہد خاقان عباسی کو بہت عزت دی۔ 2018 کے انتخابات میں جب شاہد خاقان عباسی این اے 51 اور اسلام آباد سے الیکشن ہارے تھے تو میاں نواز شریف نے انہیں لاہور سے قومی اسمبلی کا رکن بنوایا۔
طاہر اورنگزیب کے مطابق شاہد خاقان عباسی کو پارٹی کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔ ان کی عدم موجودگی سے پارٹی کو نہیں بلکہ اُن کا اپنا نقصان ہو گا۔
’نواز شریف کے مری آنے سے پارٹی اختلافات ختم ہو جائیں گے‘
حلقہ این اے 51 مری میں ن لیگ کے پارٹی اختلافات پر تبصرہ کرتے ہوئے طاہرہ اورنگزیب کا کہنا تھا نواز شریف کے مری آنے سے پارٹی کے اندر موجود اختلاف ختم ہو جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر اختلافات ہوں بھی تو ان کا مری جلسہ اور الیکشن نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
مری کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے صحافی شاکر عباسی سمجھتے ہیں کہ پنڈی ڈیویژن کی شمولیت کے سبب مسلم لیگ ن مری میں بڑا جلسہ کر سکتی ہے، تاہم مری کی حد تک عوام کی بڑی تعداد شرکت کرتے دکھائی نہیں دے رہی۔
شاکر عباسی نے اردو نیوز کو بتایا کہ نواز شریف نے حال ہی میں مری کے تمام منتخب بلدیاتی نمائندوں کو مری اپنی رہائش گاہ بلایا تھا جس کے ذریعے مری کے اندر پارٹی میں اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
تاہم اُس وقت شاہد خاقان عباسی نے الیکشن 2024 پر اپنی پوزیشن واضح نہیں کی تھی۔ اب چونکہ شاہد خاقان عباسی لیگی امیدوار کی حمایت نہیں کر رہے تو مری میں اُن کے حمایتی جو بڑی تعداد میں موجود ہیں وہ بھی ن لیگ کے ساتھ کھڑے نہیں ہو گے۔
’ مری میں ن لیگ کی بڑی سیاسی مہم دیکھنے کو نہیں ملی‘
شاکر عباسی کے مطابق شاہد خاقان عباسی کی عدم موجودگی اور پارٹی کے اندر دیگر اختلافات کی وجہ سے مری میں ن لیگ کی بڑی انتخابی مہم دیکھنے کو نہیں ملی۔ این اے 51 میں اس وقت ن لیگ کو حقیقی قیادت میسر نہیں ہے۔ راجہ اسامہ سرور کا تعلق بڑے سیاسی خاندان سے ضرور ہے، تاہم اُن کے خاندان کے آپسی اختلافات انتخابات پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔