Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پرانے سیاست دانوں کی ضد اور انا سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچا: بلاول بھٹو

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ’پرانے سیاست دان نفرت اور تقسیم کے علاوہ کچھ نہیں جانتے، ان لوگوں نے سیاست کو سیاست نہیں بلکہ گالی بنادیا ہے۔‘
انتخابی مہم کے آخری روز لاڑکانہ کے بے نظیر بھٹو سٹیڈیم میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’پرانے سیاست دانوں کی ضد اور انا کی وجہ سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچا۔‘
’انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ عوام باشعور ہیں جو انہیں بھی پہچانتے ہیں اور ان کے طریقہ کار کو بھی، اب یہ چوتھی بار وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنا چاہتے ہیں، یہ جمہوریت کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟‘
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی نے مزید کہا کہ ’آپ نے میرے خاندان کے ساتھ وفاداری کرکے نئی تاریخ رقم کی ہے، جب لاڑکانہ وزیراعظم بناتا ہے تو پورے ملک کی نمائندگی ہوتی ہے۔‘     
’جب لاڑکانہ کا وزیراعظم بنتا ہے تو محنت کرنے والوں کو صلہ بھی ملتا ہے، جب لاڑکانہ وزیراعظم بناتا ہے تو پاکستان ایٹمی طاقت بن جاتا ہے، کافی عرصے سے ملک نے لاڑکانہ کا وزیراعظم نہیں دیکھا۔‘
انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ ’آپ تیر پر ٹھپہ لگائیں تو ہی ہم مل کر شیر کا شکار کر سکتے ہیں، یہ شیر کسانوں اور غریبوں کا خون چُوستا ہے۔‘
’ہم نے ملک کو جوڑنا ہے اسے تقسیم نہیں کرنا لیکن مسلم لیگ (ن) طاقت کے نشے میں ملک کو تقسیم کر رہی ہے۔‘
پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم: ’روٹی، کپڑا اور مکان‘ سے ’چُنو نئی سوچ‘ تک   
’روٹی، کپڑا اور مکان‘ کے منشور سے ’چُنو نئی سوچ‘ کا نعرہ لے کر انتخابی مہم چلانے والی پاکستان پیپلز پارٹی اس بار انتخابات میں کامیابی کے لیے پُرامید ہے جبکہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو لاہور پر نظریں گاڑے بیٹھے ہیں۔

آصفہ بھٹو اس بار اپنے بھائی کے لیے بھرپور انتخابی مہم چلاتی نظر آئیں۔ (فوٹو: پی پی پی)

پاکستان پیپلز پارٹی سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے بعد پہلی بار ناصرف پنجاب سے اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہے بلکہ بلاول بھٹو زرداری بھی لاہور کے حلقہ این اے 127 سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس نشست پر ماضی کے اتحادی پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان سیٹ ایڈجسمنٹ کی باتیں بھی ہوئیں لیکن دونوں کے درمیان معاملات طے نہ ہو سکے۔
دونوں جماعتوں نے الیکشن مہم کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک دوسرے پر اشاروں میں طنز کے نشتر چلانے شروع کیے، سیاسی درجہ حرارت میں ابال آیا تو بات اشاروں سے بڑھ کر عہدوں تک جا پہنچی اور پھر الیکشن کے قریب آتے ہی مناظرے اور تبصروں کے بعد ایک دوسرے کی کارکردگی پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
اب الیکشن میں چند دن ہی باقی ہیں اور تمام سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی مہم کو آخری مراحل میں داخل کرتے ہوئے مخالفین کو گرانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے گذشتہ برس 27 دسمبر کو بینظیر کی یوم وفات سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا تھا۔ گڑھی خدا بخش میں عوامی اجتماع سے خطاب میں بلاول بھٹو زرداری نے مخالفین پر اشاروں میں تیر برسانے شروع کیے اور چھ فروری کو انتخابی مہم کے آخری روز تک انہوں پاکستان مسلم لیگ ن سمیت دیگر سیاسی مخالفین کے خلاف کھل کر بات کی۔

 آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو لاہور پر نظریں گاڑھے بیٹھے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان پیپلز پارٹی اس بار ملک کے چاروں صوبوں میں اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہے۔ عوامی جلوسوں میں حاضری کے حساب سے بھی مبصرین کے مطابق پی پی پی کامیاب رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کے گڑھ لاہور سمیت پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بڑے عوامی اجتماع کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کی انتخابی مہم کیسے رہی؟

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی نے 2024 کے عام انتخابات کے لیے بھرپور انتخابی مہم چلائی ہے۔
اس حوالے سے سینیئر صحافی رفعت سعید نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی تو کر رہے ہیں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے دونوں کے درمیان ایک حد بندی موجود ہے، جسے عبور نہیں کیا جا رہا۔
سینیئر صحافی عبدالجبار ناصر کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے کئی عرصے بعد ملکی سیاست میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔ جہاں ایک جانب سابق صدر آصف علی زرداری پنجاب اور بلوچستان میں متحرک نظر آئے وہیں بینظیر کی صاحبزادی آصفہ بھٹو زرداری بھی اس بار اپنے بھائی کے لیے بھرپور انتخابی مہم چلاتی نظر آئیں۔

’چُنو نئی سوچ‘ کا نعرہ لے کر انتخابی مہم چلانے والی پاکستان پیپلز پارٹی اس بار انتخابات میں کامیابی کے لیے پُرامید ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’آصفہ بھٹو نے سندھ کے شہر ٹھٹہ میں پہلی ریلی نکالی اور بینظیر سے مشابہت رکھنے کی وجہ سے ملنے والے عوامی پیار نے ان کا حوصلہ بڑھایا اور پھر بلاول کی موجودگی اور غیرموجودگی دونوں موقعوں پر ملک کے مختلف علاقوں میں وہ بلاول بھٹو کی انتخابی مہم چلاتی نظر آئیں۔‘

انتخابی نعرہ کتنا مقبول ہوا؟

رفعت سیعد کے مطابق ’پیپلز پارٹی اس بار ’چنو نئی سوچ‘ کا نعرہ لے کر انتخابی میدان میں اتری ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ملک میں موجود نوجوان ووٹرز کو اپنی طرف مائل کرنا ہے۔ پی ٹی آئی کی موجودہ پوزیشن کا ہر پارٹی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’بجلی کے تین سو یونٹ تک مفت دینے کے اعلان سے لے کر مفت تعلیم اور بہتر صحت سمیت مختلف شبعہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو متوجہ کرنے کے لیے پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں کئی اہم نکات شامل کیے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ عوام کس حد تک اسے سپورٹ کرتے ہیں۔‘

شیئر: