پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے دوبارہ وفاقی حکومت بنائے جانے کا امکان ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں عام انتخابات کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی تشکیل کے لیے جوڑ توڑ حتمی مرحلے میں داخل ہو گیا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ جلد ہی حکومتی اتحاد اور اس کے نتیجے میں مختلف جماعتوں کو ملنے والے اہم عہدوں کا اعلان کر دیا جائے گا۔
بظاہر یہی امکان ہے کہ انتخابات کا عمل شروع ہونے سے پہلے مرکز میں برسرِ اقتدار پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اتحاد ہی دوبارہ وفاقی حکومت بنائے گا تاہم نئی تشکیل پانے والی قومی اسمبلی میں ملنے والی نشستوں کے حساب سے تمام شریک جماعتوں کے عہدوں میں رد و بدل ہوگا۔
اس اتحاد میں سب سے زیادہ نشستیں لینے والی پاکستان مسلم لیگ نواز نے مشاورت کے عمل کا پہلے ہی آغاز کر دیا ہے اور نہ صرف یہ کہ پارٹی کے اندر متعدد اجلاس منعقد کیے جارہے ہیں بلکہ پارٹی قیادت نے پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور دیگر چھوٹی جماعتوں کے علاوہ آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے اراکین سے بھی بات چیت کی ہے۔
اس بات چیت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلٰی قیادت آج پیر کی شام اسلام آباد میں اپنی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) کا اجلاس منعقد کرے گی اور اس کے سامنے مسلم لیگ نواز سے ہونے والی گفت و شنید رکھے گی۔
امکان ہے کہ پیپلز پارٹی کی سی ای سی مسلم لیگ نواز کے ساتھ دوبارہ اتحاد کرنے کی منظوری دے گی اور اس اتحاد کی شرائط کا اعلان کرے گی۔
ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق اور دوسری جماعتوں سے بھی مسلم لیگ نواز مشاورت جاری رکھے ہوئے ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں پیر کے روز سے اسلام آباد منتقل ہونے کا امکان ہے۔
یہ بھی توقع کی جا رہی ہے کہ پیپلز پارٹی کی رضامندی کے بعد اگلے ایک دو روز میں تمام ممکنہ اتحادی جماعتوں کا ایک مشترکہ اجلاس منعقد ہو گا جس میں حکومتی اتحاد کو ازسر نو حتمی شکل دی جائے گی۔
نئے حکومتی اتحاد میں بٹنے والے ممکنہ عہدے
دلچسپ بات یہ ہے کہ عام انتخابات ایک ایسے وقت پر ہوئے ہیں جب صدر مملکت اور چیئرمین سینیٹ کے عہدوں کی مدت بھی ختم ہو چکی ہے یا ہو رہی ہے۔
اگر پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی دیگر اتحادیوں کا ساتھ ملا کر وفاق میں حکومت بناتے ہیں تو ایسی صورت میں پیپلز پارٹی کا سب سے پہلا مطالبہ بلاول بھٹو زرداری کے لیے وزارت عظمٰی ہے۔ اور اگر کسی وجہ سے یہ مطالبہ نہیں مانا جاتا تو ایسی صورت میں آصف علی زرداری کو ایک مرتبہ پھر صدر مملکت بنوانا ہے۔
اگرچہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت قومی اسمبلی میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی لیکن جے یو آئی (ف) بھی ایک عرصے سے مولانا فضل الرحمن کو صدر پاکستان بنانے کی تگ و دو میں لگی ہوئی ہے۔
صدر اور وزیراعظم کے بعد سپیکر قومی اسمبلی کا عہدہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ مسلم لیگ ن سردار ایاز صادق کو ایک مرتبہ پھر سپیکر قومی اسمبلی بنانا چاہتی ہے جبکہ پیپلز پارٹی بھی اس عہدے پر نظر جمائے بیٹھی ہے۔
ایم کیو ایم چونکہ 17 نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی میں پہنچی ہے وہ بھی یقیناً سپیکر یا ڈپٹی سپیکر کے عہدے کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ سنہ 2022 میں بننے والی پی ڈی ایم حکومت میں مولانا فضل الرحمن کے پاس اتنی ہی نشستیں تھیں اور ان کی جماعت کو ڈپٹی سپیکر کا عہدہ دیا گیا تھا۔
اسی طرح چیئرمین سینیٹ کا عہدہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور صدر مملکت کی غیر موجودگی میں چیئرمین سینیٹ ہی قائم مقام صدر بنتا ہے۔
مارچ میں سینیٹ میں ہونے والے انتخابات میں کون سی جماعت کتنی نشستیں حاصل کرے گی یہ کہنا تو قبل از وقت ہے لیکن پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کی نشستیں زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ دونوں جماعتیں اکثریت میں آ سکتی ہیں۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن کے لیے چیئرمین سینیٹ کے عہدے کا مطالبہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔
ان آئینی عہدوں کے بعد وفاقی کابینہ میں کئی ایک وزارتیں سیاسی جماعتوں کا مطمع نظر ہوتی ہیں۔ جن میں بالخصوص وزارت خارجہ، وزارت داخلہ، وزارت خزانہ، وزارت دفاع، وزارت امور کشمیر، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کئی دیگر وزارتیں شامل ہیں۔
وفاق میں مسلم لیگ ن اگر سربراہی کرتی ہے تو ایسی صورت میں پیپلز پارٹی وزارت خارجہ سمیت کئی دیگر اہم وزارتوں کی طالب ہو سکتی ہے۔ ایم کیو ایم بھی اب دو کے بجائے چار سے پانچ وزارتوں کا مطالبہ کر سکتی ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی کے لیے بھی سیاسی جماعتیں اپنا پورا زور لگائیں گی۔ ان میں بالخصوص پارلیمان کی کشمیر کمیٹی، قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور، قائمہ کمیٹی برائے وزارت داخلہ، قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور اور دیگر شامل ہیں۔
اسی طرح اگر پاکستان تحریک انصاف، پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کی صورت میں حکومت بناتی ہے تو سب سے پہلے وزارت عظمٰی کا عہدہ پیپلز پارٹی کا مطمع نظر ہو گا اور تحریک انصاف کے لیے ایسا کرنا کانٹوں پر چلنے کے مترادف ہو گا۔ اور اگر وہ بلاول بھٹو زرداری کو اپنا وزیراعظم قبول نہیں کرتی تو ایسی صورت میں سپیکر سمیت کئی اہم وزارتیں پیپلز پارٹی کی نظر میں ہوں گی۔ تاہم پیپلز پارٹی کو اس سمجھوتے کے بدلے میں چیئرمین سینیٹ کا عہدہ مل سکتا ہے۔