نواز شریف کا وزیراعظم نہ بننا الیکشن کا سب سے بڑا دھچکا، عامر خاکوانی کا کالم
نواز شریف کا وزیراعظم نہ بننا الیکشن کا سب سے بڑا دھچکا، عامر خاکوانی کا کالم
جمعرات 15 فروری 2024 4:51
عامر خاکوانی -صحافی، لاہور
آنے والے مہینوں میں ہم پنجاب میں خاصی سیاسی کشمکش اور ہائی ٹمپریچر دیکھیں گے(فائل فوٹو: اےا یف پی)
الیکشن کا شور شرابا ختم ہوا، دھاندلی کے الزامات چلتے رہیں گے، مگر نمایاں تبدیلی نہیں آنی۔ اِکا دُکا سیٹوں پر ٹریبونل فیصلہ سنا بھی دے تو ہائی کورٹ، سپریم کورٹ میں کیسز چلتے رہیں گے۔ سال دو سال تو کہیں نہیں گئے۔
کہتے ہیں درخت سے ٹپکا پھل اور لُٹا ہوا مینڈیٹ کبھی واپس اصل جگہ نہیں جڑ سکتا۔ صبر ہی کرنا پڑتا ہے۔
کراچی میں اگر جماعت اسلامی یا تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ وہ ریورس گیئر لگا لے گی تو ایسا لگ نہیں رہا۔ ایک چانس تھا کہ تحریک انصاف کے غیرمعمولی مینڈیٹ کو دیکھتے ہوئے ان کی تلافی کی جاتی۔ ایسا مگر ہونا ہوتا تو الیکشن نتائج رکتے ہی کیوں؟ نتائج میں تاخیر کر کے انتخابات کو مشکوک اور متنازع کیوں بنایا جاتا؟
ایم کیو ایم کا اگلی حکومت میں بہت اہم کردار ہے۔ ان کی نشستوں کے بغیر ن لیگ کی پوزیشن بہت کمزور پڑ جائے گی۔
بظاہر حافظ نعیم نے اپنی صوبائی اسمبلی کی سیٹ کی قربانی دے دی کہ اس سے کیا حاصل ہوجائے گا؟ اس ایک اقدام سے کراچی میں جماعت اور تحریک انصاف بہت قریب آ گئے ہیں۔ اگر حافظ نعیم مارچ میں جماعت کے ہونے والے امیر کے انتخابات میں ارکان جماعت کی جانب سے امیر منتخب کر لیے گئے، جس کے خاصے امکانات ہیں، تب قوی امکانات ہیں کہ جماعت اور تحریک انصاف کے دستے ایک ہی میدان میں شانہ بشانہ لڑتے نظر آئیں۔
اگرتحریک انصاف کے ساتھ تلافی کی کوئی صورت مقتدر حلقوں میں زیرغور ہوتی تو انھیں اسمبلی میں پارلیمانی سیاست کرنے کی آپشن بھی مل جاتی۔(مخصوص نشستیں البتہ نہیں مل سکتیں کہ اس کے لیے فہرست پہلے دینا لازم ہے)
اسمبلی کا اجلاس فروری کے آخری دنوں میں بلایا جائے گا، اس دوران الیکشن کے لیے خاصا وقت مل جانا تھا۔ اس کے لیے مگر تحریک انصاف کو دو قدم پیچھے ہٹ کر مفاہمت کے ساتھ یہ نظام اگلے دو تین سال پرسکون طریقے سے چلانے کی گارنٹی بھی دینا پڑتی۔ تحریک انصاف الیکشن جیتے بیٹھی ہے، اس کے لیے پسپا ہونا بہت مشکل تھا۔ سو بس یہی کچھ ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں۔
مستقبل کے نقشے کے خدوخال بڑی حد تک واضح ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے وزیراعظم کے شہباز شریف کو نامزد کر دیا ہے۔ اس کے لیے دلچسپ فلمی طریقہ اپنایا گیا۔ ن لیگ کی اتحادی جماعتوں نے وزیراعظم کا مینڈیٹ ن لیگ کے صدر شہباز شریف کو دیا۔ شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی اور قائد نواز شریف کو یہ ذمہ داری سونپی اور وزیراعظم بننے کی درخواست کی۔ نواز شریف نے (شاید مسکراتے ہوئے) شہباز شریف کو وزیراعظم نامزد کر دیا۔ بڑے میاں صاحب نے ایسا کیمروں کے سامنے نہیں کیا، اس لیے ہم تصور ہی کر سکتے ہیں کہ انہوں نے مسکراتے ہوئے اپنے چھوٹے بھائی کو یہ اعزاز دیا ہو گا۔
شہباز شریف بظاہر پندرہ بیس دنوں میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح دوسری بار وزیراعظم بننے والے خوش قسمت پاکستانی سیاست دان بن جائیں گے۔ نواز شریف تین بار ایسا کر چکے ہیں، ان کا چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے کا خواب البتہ پورا نہیں ہوا۔
میاں صاحب کا وزیراعظم نہ بننا ہی اس الیکشن سے پھوٹنے والا سب سے بڑا اور اہم دھچکا ہے۔ منگل کی شام کئی صحافی دوستوں نے ٹویٹ کیے کہ نواز شریف کا وزیراعظم نہ بننا شاید اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے ہوا۔
ایک دوست نے ٹویٹ کیا کہ لگتا ہے نواز شریف نے معاف کر دیا، مگر نواز شریف کو معاف نہیں کیا گیا۔
میری معلومات اس کے برعکس ہیں۔ جب میاں نواز شریف ابھی لندن میں تھے، تب ہی سے ان کے نجی حلقے تک رسائی رکھنے والے ذرائع یہ خبریں دے رہے تھے کہ نواز شریف وطن لازمی واپس آئیں گے۔ ان پر تمام کیسز ختم ہوجائیں گے، وہ الیکشن لڑ کر چوتھی بار وزیراعظم بنیں گے کہ یہ سب چیزیں ایک دوسرے سے لنک ہیں۔ تب یہ پتا چلا تھا کہ ملک میں غیرملکی انویسٹمنٹ کے حوالے سے خاصا کچھ ایسا ہے جو میاں نواز شریف کی ایوان اقتدار موجودگی سے جڑا ہوا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان آنے سے پہلے میاں صاحب کی مختلف ممالک میں اہم ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ یہ سب چیزیں اس کی متقاضی تھیں کہ وہ الیکشن جیت جائیں۔
کہا جاتا ہے کہ سکرپٹ میں صرف معمولی سا اختلاف ن لیگ کی قومی اسمبلی کی ممکنہ نشستوں پر تھا۔ سیاست پر گہری نگاہ رکھنے والوں کا ایک خیال شاید یہ تھا کہ ن لیگ کو اسی نوے سیٹیں ملیں جبکہ جے یوآئی، ایم کیو ایم ، آئی پی پی، پرویز خٹک کے تحریک انصاف پارلیمنٹرینز وغیرہ مل ملا کر ساٹھ ستر سیٹوں کا ’اتحادی زون‘ فراہم کر دیں۔
البتہ میاں نواز شریف دلی طور پر چاہتے تھے کہ ن لیگ 100 سے زیادہ سیٹیں جیت لے۔ ان کا خواب 120 سیٹوں کا تھا، جس کے بعد مخصوص نشستوں اور ایم کیو ایم، جے یوآئی، آئی پی پی ، ق لیگ جیسے اتحادیوں کے ساتھ مل کر سادہ اکثریت حاصل ہو جائے، اسے مزید مضبوط بنانے کے لیے وہ پیپلزپارٹی کو بھی مناسب شرائط پر شامل کر سکتے تھے۔ میاں صاحب کمفرٹیبل اکثریت کے ساتھ آنا چاہتے تھے۔
آٹھ فروری کو عوام کے طوفانی ریلے نے یہ سب سکرپٹ اور منصوبے اڑا دیے۔ کچھ بھی نہیں بچا۔ خیبر پختونخوا میں مینڈیٹ اتنا بڑا تھا کہ بیش تر نشستوں پر ساٹھ ستر ہزار کی لیڈ سے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ پنجاب کی بھی متعدد نشستوں پر ایسا ہوا۔ اتنے بڑے مینڈیٹ کو مکمل طور پر بلڈوز کرنا ممکن نہیں تھا۔ یہی کچھ ہو سکتا تھا جو حتی الامکان کاریگری سے کیا گیا۔
ن لیگ کی نشستیں مگر کافی نہیں تھیں۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اکثر اتحادی جماعتیں بری طرح متاثر ہوئیں۔ پرویز خٹک کی نوزائیدہ جماعت تو پانی میں گری نمک کی ڈلی کی طرح تحلیل ہو گئی۔ جہانگیر ترین خود بھی ہارے اور آئی پی پی کو ق لیگ سے بھی کم سیٹیں دلوا پائے۔ جے یو آئی کا کے پی میں صفایا ہی ہو گیا۔ جو انہیں بارہ چودہ سیٹیں دلوا رہے تھے، وہ خود ششدر رہ گئے۔ ایم کیو ایم البتہ ثمریاب ہوئی۔ اس کی سیٹیں ویسے بھی پلان بی میں بہت اہم ہو گئی تھیں۔
ن لیگ کے اِن سائیڈ ذرائع بڑے میاں صاحب کی وطن واپسی کے دو مقاصد بیان کرتے تھے۔ چوتھی بار وزیراعظم بن کر ملک کو’ترقی‘ کی شاہراہ پر گامزن کرنا اور اپنی دختر نیک اختر مریم نواز کی اقتدار کی سیاست میں بھرپور لانچنگ۔
چوتھی بار وزیراعظم بننے کا خواب تو اڈیالہ جیل کے ایک قیدی نے بری طرح سبوتاژ کر دیا۔ جو ٹوٹی پھوٹی، لولی لنگڑی حکومت بن رہی ہے، مزاجاً نواز شریف ایسی ٹیم کے قائد نہیں بن سکتے۔ اس مقصد کے لیے شہباز شریف ہی واحد آپشن تھے۔
اب میاں صاحب کی اصل دلچسپی مریم نواز شریف کو آگے بڑھانا ہے۔ انہیں وزیراعلیٰ نامزد کر دیا گیا۔ نمبر گیم پوری ہے، آسانی سے وہ صوبے کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ بن جائیں گی۔ کوئی نہیں جانتا تو اب جان جائے کہ ن لیگ میں میاں نواز شریف کی لیگیسی یا سیاسی وراثت مریم نواز شریف کو منتقل ہو چکی۔ جسے شک ہے وہ شاہد خاقان عباسی کا حشر دیکھ سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن میں صرف وہی رہے گا جو مریم نواز کو اپنا قائد تسلیم کرے گا۔ حمزہ شہباز اب ن لیگ میں سائیڈ ایکٹر بن چکے، شاید ہمیشہ کے لیے۔
سوال اب یہ ہے کہ مریم نواز شریف کی ٹیم کیا ہو گی؟ ان کے مزاج اور سوچ سے آگاہ لوگ یہ بتاتے ہیں کہ مریم نواز کی ٹیم میں روایتی مسلم لیگی رہنما نظر نہیں آئیں گی۔ لندن میں اپنے قیام کے دوران نجی محفل میں وہ ہمیشہ شکوہ کناں رہیں کہ ن لیگ کی قیادت اور بیش تر لیڈر عمررسیدہ ہیں جن کی اوسط عمر 60 برس سے زیادہ ہے۔ اپنی کابینہ اور صوبائی حکومت چلانے والی ٹیم میں وہ نسبتاً ینگ لوگوں کو آگے لائیں گی۔ ان کے ساتھیوں میں شعلہ بار اور تحریک انصاف پر تند وتیز لہجے میں تیر برسانے والے لازمی ہوں گے۔
آنے والے مہینوں میں ہم پنجاب میں خاصی سیاسی کشمکش اور ہائی ٹمپریچر دیکھیں گے۔ ’حملہ ہی بہترین دفاع ہے‘ کے عسکری اصول پر یقین رکھنے والی مریم نواز شریف کو اہل پنجاب شاید جلد زیادہ اچھی طرح سے جان پائیں گے۔ میاں نواز شریف جاتی عمرہ لاہور میں بیٹھ کر مریم نواز کی رہنمائی اور سرپرستی فرمائیں گے۔ شاید اس سے معاملات کچھ بہتر رہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی نے مرکز اور پنجاب میں ن لیگ کی کابینہ کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ البتہ پی پی پی کی شدید خواہش ہو گی کہ آصف زرداری کو نیا صدر مملکت بنایا جائے۔ مسلم لیگ ن کی مدد کے بغیر وہ صدر منتخب نہیں کرا سکتے۔ ن لیگ کو تعاون کرنا ہی پڑے گا۔ اگر پیپلزپارٹی ساتھ نہ دے تو ن لیگ اپنا بجٹ بھی منظور نہیں کرا سکے گی۔ پی پی پی اپنا سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ لانے کی بھی کوشش کرے گی۔
بلوچستان کی وزارت اعلیٰ کے لیے بھی پیپلزپارٹی بارگین کرنا چاہے گی۔ اگرچہ اس پر مولانا فضل الرحمان بھی نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان ویسے صدر پاکستان بھی بننا چاہتے ہیں۔ آصف زرداری مگر اس حوالے سے بہتر کارڈز رکھتے ہیں۔ پیپلزپارٹی ممکن ہے پنجاب میں اپنا گورنر بھی لانا چاہے۔ رحیم یار خان کے مخدوم احمد محمود (سابق گورنر پنجاب)یا لالہ موسیٰ کے قمر زمان کائرہ ان کی آپشنز ہو سکتے ہیں۔ اگلے چند دنوں میں اس نقشے میں رنگ بھرا جائے گا تو چیزیں مزید کلیئر ہوں گی۔
رہی تحریک انصاف اور علی امین گنڈاپور کا اچانک چمک اٹھنے والا ستارہ، تو اس کے بارے میں پھر کبھی سہی۔