اس نے اپنے لئے ہر اس کام کو درست قرار دے رکھا ہے جو اسکے پڑوسیوں کےلئے خطرناک نتائج کا حامل ہے
عبدالرحمان الراشد
ملکوں کے مابین اختلافات کوئی نئی بات نہیں ۔ مختلف اوقات میں ریاستی اختلافات کے بارے میں سنتے آئے ہیں مگر قطر کے معاملے میں حالت کافی تکلیف دہ اور بلاجواز ہے جس کا سامنا کافی عرصہ سے ہے ۔ اس بارے میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ حالات میں اتار چڑھاﺅ معمولی ہو گا جو موسم کے بادل کی طرح گزر جانے والے ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ 20 برس کے مشاہدے اور حالات نے میرے خیالات کو غلط ثابت کر دیا ۔
دسمبر 1990ء میںجب کویت کا تنازع جاری تھا اس کے 10 لاکھ کے قریب شہری بے گھر ہو چکے تھے اور حکومت بھی جلا وطنی سے دوچار تھی۔ اس موقع پر 6 خلیجی ریاستوں کے سربراہ دوحہ میں جمع ہوئے جہاں کویت کے حال اور مستقبل کے حوالے سے کانفرنس منعقد کی گئی تھی جس کا واحد ایجنڈا " رکن ملک کو بیرونی قبضے سے آزاد کروانا " تھا ۔ اس کانفرنس کے شرکاءجب جمع ہو ئے تو انہیں یہی معلوم تھا کہ کانفرنس واحد ایجنڈے کے لئے منعقد کی گئی ہے اور اسی بارے میں تجاویز پیش کرکے انکا حل تلاش کیا جائے گا کہ کس طرح رکن ملک کویت کو بیرونی قبضے سے آزاد کروایا جاسکے ۔ کانفرنس میں خلیجی ریاستوں کے سربراہوں کو اس وقت شدید جھٹکا لگا جب شیخ حمد بن خلیفہ نے جو اس وقت ولی عہد قطر تھے ایجنڈے سے ہٹ کر دوسرا موضوع کانفرنس میں پیش کرنے پر اصرار کرتے ہوئے سب کو حیران کر دیا ۔ شیخ حمد نے جو میزبان بھی تھے کانفرنس کے ایجنڈے کو اس وقت تک کےلئے زیر بحث لانے سے انکار کر دیا جب تک انکی جانب سے پیش کئے جانے والے تنازع کو زیر بحث نہیں لایا جاتا جو بحرین اور قطر کے مابین بعض جزیروںکے حوالے سے تھا ۔ قطر کی جانب سے اس قسم کی حرکت نے سب کو حیرت زدہ کر دیا تھا ۔
ہم جو کانفرنس ہال کے باہر اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ کانفرنس ختم ہو اور اعلامیہ کے بارے میں معلوم کیا جائے کہ خلیجی سربراہوں نے کیا فیصلہ کیا مگر اچانک کانفرنس ہال کا دروازہ غیر متوقع انداز میں کھلا جس نے ہم سب کو حیران کر دیا کیونکہ دروازے سے نکلنے والی شخصیت شاہ فہد رحمتہ اللہ علیہ کی تھی جو انتہائی غصہ کی حالت میں تھے ۔شیخ حمد نے شاہ کا تعاقب کیا مگر جو کچھ ہو چکا تھا اس نے معاملے کو بہت حد تک گمبھیر بنا دیا تھا کیونکہ شاہ فہد نے شیخ حمد کو کانفرنس کابائیکاٹ کرتے ہوئے جو مقررہ ایجنڈے کے برخلاف منعقد کی جانے والی تھی واپس ریاض لوٹ جانے کی دھمکی دی ۔ یہی حال دیگر خلیجی ریاستوں کے سربراہوں کا بھی تھا۔ ہر کوئی اس طرز عمل سے نالاں اور حیرت زدہ تھا کیونکہ جس مقصد کےلئے کانفرنس منعقد کی جانی تھی شیخ حمد نے اسے پس پشت ڈالتے ہوئے اپنا ایجنڈا پیش کر دیا تھا۔ اس وقت سے لیکر آج تک قطر کے ساتھ خلیجی ریاستوں کے اختلافات ختم نہیں ہو سکے بلکہ ان میں اضافہ ہی دیکھنے میں آیا خاص کر جب امیر قطر نے اپنے والد کے خلاف انقلاب برپا کیا اور 2 دہائیوں کے مابین اختلافات کو پروان چڑھایا ۔ اس کا یہ طرز عمل اس وقت سے جاری ہے ۔
دوحہ نے جس طرح اپنی پالیسی تبدیلی کی اور سعودی عرب کے ساتھ مخالفانہ طرز عمل اپنا ئے رکھا اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے ۔ دوحہ کی جانب سے ایران خاص کر حزب اللہ اور شامی صدر کے ساتھ روابط مستحکم کئے گئے جس کے ساتھ ساتھ قطر اپنے مخالفین کا دائرہ وسیع اور دوستی کا نقشہ بدلنے لگایہاں تک کہ خطے کے آدھے سے زائد ممالک کے اس کے ساتھ اختلافات ہو نے لگے ۔ اس کی بنیادی وجہ اس (دوحہ ) کا خطرناک رویہ تھا جس سے ہر کوئی نالاں تھا ۔ بالآخر اس رویے نے اثردکھانا شروع کیا اور خطے میں وہ تنہا ہونے لگا کیونکہ بلاوجہ مخالفانہ رویہ کب تک برداشت کئے جاسکتے ہیں ۔ اس رویہ کے اثرات حال ہی میں سامنے آئے جس میں تمام خلیجی ریاستوں نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ قطر کے ساتھ تعلقات منقطع کردیئے جائیں اور اس کے ساتھ کوئی لین دین نہ کیا جائے ۔ قطر کا طرز عمل بچکانہ ہی ہے تاہم اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ تکلیف دہ بھی ہے جو مختلف گروہوں اور افراد کو انکی حکومتوں کے خلا ف اٹھنے کےلئے فنڈ بھی مہیا کرتاہے۔ اس نے اپنے منصوبوں پر عمل کرتے ہوئے متعدد ٹی وی چینلز کھولے اور سوشل میڈیا پر بھی اکاﺅنٹس قائم کئے ہیں تاکہ منتخب حکومتوں کے خلاف اٹھنے والوں کی حمایت کی جاسکے ۔ اس وقت دوحہ کی حکومت مختلف جماعتوں سے رابطوں میں ہے جن میں اخوان المسلمین جو دراصل ایرانی نظام کی طرز پر اپنے لئے حکومتی سیٹ اپ چاہتے ہیں جو لیبا، مصر اور فلسطین میں بھی ناکام ہو چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ قطر کی جانب سے بحرین کےلئے کی جانے والی کارروائیاں سب سے زیادہ خطرناک ہیں جن میں بحرینی حزب اختلاف کو فنڈز کی فراہمی شامل ہے تاکہ وہ بحرین میں حکومت کے خلاف اپنے مقاصد حاصل کر سکے تاہم بحرینی حکومت کے خلاف کی جانے والی قطری کوششیں بارآور ثابت نہ ہو سکیں ۔
قطر کو اپنی کارروائیوں میں واحد کامیابی لبنان میں حاصل ہوئی جب مغربی بیروت میں لبنانی قائدین کو ہلاک کروا کے مغربی علاقے پر اپنے حامیوں کے ذریعے قبضہ کیا ۔ یہ دوحہ قطرہی ہے جس نے ایران سے تعلقات استوار کرتے ہوئے اپنے پڑوسی خلیجی ممالک کو ناراض کیا ۔
میرے خیال میں قطر کی مشکلات خود پیدا کردہ ہیں جو بلاجواز اور غیر منطقی ہیں مگر وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ جو کچھ وہ اپنے پڑوسی بحرین کے ساتھ کر رہا ہے وہ جائز اور درست ہے جس میں بحرینی حکومت کا تختہ الٹنا اور اپنی مرضی کے لوگوں کو وہاں مسلط کر کے اپنی سرحدوں میں توسیع کرنے کے علاوہ دیگر عزائم بھی شامل ہیں ۔ قطر نے ہر اس کام کو اپنے لئے درست قرار دے رکھاہے جو اس کے پڑوسیوں کےلئے خطرنا ک نتائج کا حامل ہے ۔ دینی انتہا پسند جماعتوں کی سرپرستی کرنا جن میں اخوان اور سلفیہ کے علاوہ بائیں بازو کی جماعتیں اور انتہا پسند لسانی و علاقائی تنظیموں کی مکمل پشت پناہی اور حمایت شامل ہے ۔ ماضی میں بھی قطر کی جانب سے انتہاپسند عسکری تنظیموں کی حمایت کی گئی جن میں القاعدہ بھی شامل ہے ۔
٭٭٭٭٭٭