جسٹس (ریٹائرڈ) مظاہر نقوی مِس کنڈکٹ کے مرتکب قرار، برطرف کرنے کی سفارش
جسٹس (ریٹائرڈ) مظاہر نقوی مِس کنڈکٹ کے مرتکب قرار، برطرف کرنے کی سفارش
جمعرات 7 مارچ 2024 17:39
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
سپریم جوڈیشل کونسل کے مطابق ’مظاہر نقوی کو بطور جج عہدے سے ہٹایا جانا چاہیے تھا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس (ریٹائرڈ) مظاہر نقوی کو مس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دے دیا ہے اور کہا ہے کہ ’اُنہیں بطور جج عہدے سے ہٹایا جانا چاہیے تھا۔‘
جمعرات کو سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق ’جسٹس (ریٹائرڈ) مظاہر نقوی کے خلاف 9 شکایات آئیں۔‘
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’سپریم جوڈیشل کونسل نے سابق جج مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف رائے دے دی۔‘
’سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے پر صدر مملکت کارروائی کے مجاز ہیں۔ کونسل نے اپنی رائے منظوری کے لیے صدر مملکت کو بھجوا دی ہے۔‘
سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے رول 5 میں ترمیم کر دی۔ رول پانچ میں ترمیم کے بعد الزامات پر وضاحت دینے کا حق ججز کو دے دیا گیا ہے۔
اعلامیے کے مطابق ’ججز اگر کوئی وضاحت جاری کریں تو اسے شہرت حاصل کرنے کے لیے کیا گیا اقدام قرار نہیں دیا جائے گا۔‘ سپریم جوڈیشل کونسل نے تفصیلی رائے میں کیا کہا ہے؟
سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنی تفصیلی رائے میں کہا ہے کہ ’ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے ججز پر اگر الزامات عائد ہوں تو انہیں عوامی سطح پر زیرِ بحث لایا جا سکتا ہے۔‘
کچھ ججز کی جانب سے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’اگر الزامات پر جواب دیں گے تو وہ بھی مس کنڈکٹ کے زُمرے میں آئے گا۔‘
کونسل نے رائے دی ہے کہ ’کوڈ آف کنڈکٹ کے آرٹیکل پانچ کے مطابق ججز کو عوامی شہرت کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیے۔‘
جوڈیشل کونسل نے جائزہ لے کر رائے دی کہ ’اگر کوئی جج اپنے اوپر لگے الزامات کی وضاحت کرتا ہے یا جواب دیتا ہے تو یہ کونسل رُول پانچ کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔‘
کونسل کی رائے کے مطابق ’ججز کی جانب سے اپنے خدشات ظاہر کرنے کے بعد جوڈیشل کونسل کے رُول پانچ میں ترمیم کی جاتی ہے۔‘
ترمیم کے مطابق ’کوئی جج اپنے اوپر لگے الزام کا جواب دے سکے گا، ترمیم شدہ کونسل رُول پانچ کے تحت جج کسی تنازع یا سیاسی نوعیت کے سوال کا جواب نہیں دے گا۔‘
سپریم جوڈیشل کونسل نے رائے دی کہ ’مظاہر نقوی کے خلاف موصول ہونے والی 9 شکایات کا جائزہ لیا گیا اور انہیں شوکاز نوٹس جاری کر کے 14 دن میں جواب جمع کرانے کی مہلت دی گئی، تاہم انہوں نے اپنی صفائی میں کچھ بھی پیش نہیں کیا۔‘
کونسل نے رائے دی کہ ’آرٹیکل 209کی شق 6 کے تحت مظاہر نقوی کو مِس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے، مظاہر نقوی کو بطور جج عہدے سے برطرف کیا جانا چاہیے تھا۔‘
تحریری فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ’سپریم جوڈیشل کونسل نے ججز کے خلاف چھ دیگر شکایات عدم شواہد کی بنیاد پر خارج کر دیں۔‘
’بلوچستان ہائی کورٹ کے ایک جج کے خلاف شکایت کی بنیاد پر 14 روز میں جواب جمع کرانے کے لیے نوٹس جاری کردیا گیا ہے۔‘
سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف کارروائی ختم نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
رواں برس 11 جنوری کو سپریم جوڈیشل کونسل نے بطور جج سپریم کورٹ مستعفی ہونے والے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف کارروائی ختم نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اجلاس میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’عوامی اعتماد کا شفافیت سے براہ راست تعلق ہے، کونسل کے سامنے سوال یہ ہے جج کے استعفے کا کارروائی پر کیا اثر ہوگا؟‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’جج کو ہٹانے کا طریقہ کار رُولز آف پروسیجر 2005 میں درج ہے، سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے جون 2023 میں فیصلہ دیا۔‘
’اس فیصلے میں کہا گیا کہ جج ریٹائر ہو جائے تو اس کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی، کیس میں سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کے خلاف شکایتی معلومات سپریم جوڈیشل کونسل بھیجی گئیں۔‘
اجلاس میں اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ ’کونسل میں اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے شکایت پر کارروائی نہیں کی، اُن کے خلاف آئینی درخواست 2020 میں دائر ہوئی اور فیصلہ 2023 میں ہوا۔‘
اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’ثاقب نثار کے معاملے میں تو کارروائی شروع نہیں ہوئی تھی جبکہ اب ہو چکی ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’یہ اپنی نوعیت کا پہلا معاملہ ہے جس کا سامنا سپریم جوڈیشل کونسل کر رہی ہے۔‘
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ’اس کا مطلب یہ نہیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل رائے نہیں دے سکتی، جج کا کوئی دوست کارروائی کے آخری دن بتا دیتا ہے کہ برطرفی ہوگی اور وہ استعفیٰ دے جائے تو کیا ہوگا؟ اٹارنی جنرل کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟‘
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ’کارروائی کے دوران جج کا استعفی دے جانا اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے، جو فیصلہ جون 2023 میں آیاوہ دو رکنی بینچ کا تھا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آنے کے بعد آئینی معاملات پر یہ بینچ فیصلہ نہیں دے سکتا تھا۔‘
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف کارروائی ختم نہیں کی جائے گی۔ سپریم جوڈیشل کونسل مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف شکایات پر کارروائی جاری رکھے گی۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے کہا کہ جسٹس مظاہر نقوی کو استعفے کے باوجود بھی حق دفاع بھی دے دیا گیا۔ جسٹس مظاہر نقوی کا استعفیٰ
رواں سال 10 جنوری کو سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استعفیٰ دے دیا تھا۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ ’میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا جج رہا، اب میرے لیے عہدے پر کام جاری رکھنا ممکن نہیں ہے۔‘
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت زیرِ سماعت تھی جس میں اُن پر آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزامات تھے، اِس کے علاوہ ان کی ایک مبینہ آڈیو بھی سامنے آئی تھی۔‘ جسٹس مظاہر نقوی کا جوڈیشل کونسل کی کارروائی اوپن کرنے کا مطالبہ
14 دسمبر 2023 کو جسٹس مظاہر نقوی نے جوڈیشل کونسل کی کارروائی اوپن کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہ کہا تھا کہ ’آئینِ پاکستان مجھے کُھلی سماعت کا حق دیتا ہے۔‘