اچکزئی نے اپنے سابق مخالفین کی حمایت سے صدارتی انتخاب کیوں لڑا؟
اچکزئی نے اپنے سابق مخالفین کی حمایت سے صدارتی انتخاب کیوں لڑا؟
اتوار 10 مارچ 2024 6:01
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
محمود خان اچکزئی ایک بار صوبائی اور پانچ بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔ (فوٹو: پشتونخوا میپ)
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ اور سنی اتحاد کونسل کے حمایت یافتہ صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی کو صدارتی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ محمود خان اچکزئی کو باقی تینوں صوبوں سے ووٹ ملے تاہم اپنے صوبے بلوچستان سے انہیں ایک بھی ووٹ نہیں ملا۔
پشتونخوا میپ کے سربراہ کو اپنے ہی صوبے میں کیوں ناکامی ہوئی؟ شکست کا یقین ہونے کے باوجود محمود خان اچکزئی نے اپنی سابق حریف جماعت کی حمایت سے صدارتی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیوں کیا اور اس کے نتیجے میں انہوں نے کیا حاصل کیا؟
یہ وہ سوالات ہیں جو اس وقت اٹھائے جا رہے ہیں۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما ان سوالات کے جواب میں کیا مؤقف رکھتے ہیں اور تجزیہ کاروں کا کیا ماننا ہے اس پر بات کرنے سے پہلے صدارتی انتخابات میں بلوچستان اسمبلی کے نتائج کا ذکر کرتے ہیں۔
بلوچستان کی 65 رکنی اسمبلی میں 62 ارکان رائے دینے کے اہل تھے۔ دو نشستیں بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ سردار اختر مینگل اور سابق وزیراعلٰی ن لیگ کے جام کمال خان کی جانب سے قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانے کی وجہ سے خالی تھیں جبکہ ایک نشست پی بی 22 حب کے نتیجے کا اب تک اعلان نہیں کیا گیا۔
62 میں سے 47 ارکان نے حق رائے دہی کا استعمال کیا اور تمام کے تمام ووٹ پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری کو ملے۔ محمود خان اچکزئی کو کوئی ووٹ نہیں ملا۔ 15 ارکان نے انتخابی عمل میں حصہ نہ لے کر غیر جانبدار رہنے یا پھر اس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ ان میں جمعیت علمائے اسلام کے 12، جماعت اسلامی، حق دو تحریک اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے ایک ایک رکن شامل تھے۔
آصف علی زرداری کو پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعت ن لیگ کے 17،17 ارکان، بلوچستان عوامی پارٹی کے پانچ، نیشنل پارٹی کے چار، عوامی نیشنل پارٹی کے تین اور ایک آزاد رکن مولوی نوراللہ سمیت مجموعی طور پر 47 ارکان کی حمایت حاصل تھی اور یہ سبھی ووٹ انہیں مل بھی گئے۔
محمود خان اچکزئی کی جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور ان کی اتحادی جماعت سنی اتحاد کونسل کا بلوچستان اسمبلی میں کوئی رکن نہیں تھا اس لیے انہیں کوئی ووٹ نہیں ملا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی صوبے کی واحد جماعت تھی جس نے محمود خان اچکزئی کی حمایت کی تھی تاہم صوبائی اسمبلی میں اس کی واحد نشست سردار اختر مینگل کی جانب سے قومی کا حلف اٹھانے کی وجہ سے خالی ہوگئی تھی۔
بلوچستان اسمبلی میں محمود خان اچکزئی کو پولنگ ایجنٹ بھی نہیں مل سکا۔
بلوچستان اسمبلی میں محمود خان اچکزئی کو پولنگ ایجنٹ بھی نہیں مل سکا۔ انہوں نے اپنی جماعت کے صوبائی صدر اور سابق رکن قومی اسمبلی عبدالقہار خان ودان کو پولنگ ایجنٹ مقرر کیا تھا تاہم پریذائیڈنگ افسر چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ نعیم اختر افغان نے یہ کہہ کر انہیں پولنگ ایجنٹ کے فرائض انجام دینے سے روک دیا کہ اس کے لیے رکن اسمبلی ہونا ضروری ہے۔
عبدالقہار خان ودان کا کہنا تھا کہ ’میں نے بطور مبصر انتخابی عمل کا مشاہدہ کرنے کی درخواست کی مگر یہ درخواست بھی رد کردی گئی حالانکہ وہاں صحافی موجود تھے اور ان کی حیثیت بھی مبصرکی سی ہوتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس اقدام نے انتخابی عمل کو مشکوک کیا۔ ہمیں شبہ ہے کہ خفیہ رائے دہی کے بجائے ارکان پر نظر رکھنے کے لیے کیمرے نصب کیے گئے تھے۔ اس سلسلے میں پولنگ افسر کے فرائض انجام دینے والے ریجنل الیکشن کمشنر کوئٹہ نعیم احمد سے پوچھا تو انہوں نے تبصرہ کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ اس بابت پریذائیڈنگ افسر سے پوچھا جائے۔‘
محمود خان اچکزئی نے بلوچستان اسمبلی سے ایک بھی ووٹ نہ ملنے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ ’ڈاکٹر مالک رات تک تو کہہ رہے تھے کہ سنی اتحاد کونسل کو ووٹ دیں گے۔ پتہ نہیں وہ کیلے پر پھسل گئے یا غریب کے ساتھ کیا ہوا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سردار اختر مینگل نے انہیں ووٹ دیا تاہم بلوچستان اسمبلی میں ان کی ایک نشست قومی اسمبلی کا حلف اٹھانے کی وجہ سے خالی رہی جس کی وجہ سے انہیں ایک بھی ووٹ نہیں ملا۔‘
’قوم پرست بیانیہ مسترد ہوا‘
پیپلز پارٹی کے رہنما سید حسن مرتضیٰ نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی سے آصف علی زرداری کو 47 ووٹ جبکہ محمود خان اچکزئی کو کوئی ووٹ نہیں ملا۔ بلوچستان نے جہاں محمود خان اچکزئی قوم پرستی کی سیاست کرتے تھے انہیں مسترد کیا ہے۔
سابق نگراں وزیر اطلاعات بلوچستان جان اچکزئی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر تبصرہ کیا کہ ’بلوچستان جاگ گیا ہے۔ صوبے نے ریاست مخالف عناصر کو مسترد کر دیا ہے۔ ایک جماعت نے حمایت کر کے ریاست مخالف عناصر کو کیش کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے امیدوار کو آبائی صوبے میں مسترد کر دیا گیا جہاں انہیں ایک ووٹ بھی حاصل نہیں ہوا۔‘
تاہم پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر عبدالقہار خان ودان نے الزام لگایا ہے کہ ’ہمیں کچھ جماعتوں نے حمایت کی یقین دہانی کرائی تھی مگر انہیں نتائج کی دھمکیاں دے کر پیغام دیا گیا کہ محمود خان اچکزئی کو بلوچستان اسمبلی سے ایک بھی ووٹ نہیں ملنا چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ‘محمود خان اچکزئی سے آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی اور اداروں کو اپنے دائرہ کار تک محدود رہنے سے متعلق اپنے دو ٹوک موقف کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ ناراض ہیں اس لیے ان کی پوری کوشش تھی کہ بلوچستان سے پشتونخوا میپ کے چیئرمین کو کوئی ووٹ نہ پڑے۔‘
لیکن تجزیہ کار رشید بلوچ کہتے ہیں کہ وہ نیشنل پارٹی کے فیصلے کے پیچھے کسی بیرونی دباؤ کو نہیں سمجھتے۔ ان کے بقول نیشنل پارٹی نے نظریے اور پرانے اتحادیوں کو نظر انداز کر کے حلقوں کی سیاست کو ترجیح دی۔
ان کا کہنا تھا کہ نیشنل پارٹی کے بعض نومنتخب اراکین اسمبلی حکومت کی مخالفت نہیں کرنا چاہتے تھے تاکہ مستقبل میں اپنے حلقوں کے لیے ترقیاتی منصوبے اور فنڈز اور دیگر فائدے لے سکیں۔ اسی طرح زرداری کی حمایت کرکے مستقبل میں ان سے صدر مملکت اور پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے ضرورت پڑنے پر کام لینا چاہتے ہیں۔
سینیٹ، قومی اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی میں نمائندگی رکھنے والی نیشنل پارٹی آصف علی زرداری اور محمود خان اچکزئی کی حمایت کے معاملے پر تذبذب اور تقسیم کا شکار رہی۔ یہ ملک کی وہ واحد جماعت رہی جس کے کچھ ارکان نے آصف علی زرداری اور کچھ نے محمود خان اچکزئی کی حمایت کی۔
نیشنل پارٹی کے دو سینیٹرز کہدہ اکرم دشتی اور طاہر بزنجو نے محمود خان اچکزئی کی حمایت کی جبکہ نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سمیت بلوچستان اسمبلی میں نیشنل پارٹی کے چار ارکان اور قومی اسمبلی میں اکلوتے رکن پھلین بلوچ نے آصف علی زرداری کی حمایت کی۔ اس طرح محمود خان اچکزئی کو بلوچستان اسمبلی سے نیشنل پارٹی کی جانب سے بھی کوئی ووٹ نہیں مل سکا۔
نیشنل پارٹی نے انتخابات کے بعد مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاجی تحریک کے لیے پشتونخوا میپ کے ساتھ مل کر چار جماعتی اتحاد تشکیل دیا تھا۔ اس سے پہلے دونوں جماعتیں 2013 کے انتخابات کے بعد بلوچستان اسمبلی میں ن لیگ کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت کا حصہ اور مرکز میں ن لیگ کی اتحادی رہی۔
ماضی کے بد ترین مخالف جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پشتونخوا میپ میں حالیہ سالوں میں قربتیں دیکھی گئیں۔ دونوں جماعتوں نے آٹھ فروری کے انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کی۔ محمود خان اچکزئی نے پشین کی قومی اسمبلی کی اس نشست پر مولانا فضل الرحمان کے حق میں دستبردار ہوئے جہاں سے وہ کامیاب ہوئے۔
تاہم جے یو آئی (ف) نے صدارتی انتخاب میں حصہ نہ لے کر غیرجانبدار رہنے کا فیصلہ کیا اور بلوچستان اسمبلی میں اس کے 12 میں سے کسی بھی رکن نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔
عبدالخالق رند کہتے ہیں کہ محمود خان اچکزئی کو نیشنل پارٹی اور جے یو آئی (ف) سے حمایت کی توقع تھی۔ اگر دونوں جماعتیں ان کی حمایت کرتیں تو محمود خان اچکزئی کو بلوچستان اسمبلی سے کم از کم 16 ووٹ مل سکتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ نیشنل پارٹی کا فیصلہ غیر متوقع تھا جبکہ جے یو آئی (ف) اور مولانا فضل الرحمان شاید اس لیے محمود خان اچکزئی کی حمایت نہیں کی کہ انہیں تحریک انصاف نے نامزد کیا تھا جس سے ان کے شدید اختلافات رہے ہیں۔
ان کے بقول جے یو آئی (ف) شاید پی ٹی آئی سے فاصلہ برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ مولانا دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے بھی پی ڈی ایم میں فعال کردار ادا کرنے کے باوجود انتخابات میں مناسب حصہ نہ ملنے پر ناراض ہیں۔ اسی لیے جے یو آئی (ف) غیر جانبدار رہی اور کسی امیدوار کی حمایت نہیں کی۔
محمود خان اچکزئی نے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کیوں کیا؟
اس سوال پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل عبدالرحیم زیارتوال نے اردو نیوز کو بتایا کہ انتخابات میں دھاندلی اور من پسند اسمبلیاں اور حکومتیں بنانے کے بعد سیاست کے لیے جو نقشہ بنایا گیا تھا اس میں صدر بھی بلا مقابلہ آنا تھا اس لیے پشتونخوا میپ نے قومی اسمبلی میں صرف ایک نشست ہونے کے باوجود انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے مشکل صورتحال میں مقابلہ کیا اور 181 ووٹ لیے یہ بہت بڑی بات ہے اس میں تحریک انصاف اور ان کی قیادت کا کردار ہے ہم اس کے شکر گزار ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی دیگر سیاسی اور جمہوری لوگوں نے ہم پر اعتماد اور بھروسہ کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں سیاسی، آئینی، معاشی اور سماجی بحران کے حل کا واحد راستہ شفاف اور غیرجانبدار انتخابات تھے لیکن یہ امیدیں پوری نہیں ہوسکیں۔ ملکی تاریخ میں بدترین انتخابی دھاندلی کی گئیں، جعلی نتائج پر اسمبلیاں اور حکومتیں بن گئیں۔
’ایسے میں دو راستے تھے کہ گھر بیٹھ کر خاموش رہا جائے یا پھر میدان میں عملی طور پر فعال ہوجائے اور جمہوریت اور آئین کی بات جائے۔ ہم خود کو ملک اور سیاست میں شراکت دار سمجھتے ہیں۔ صرف دو خاندان، دو جماعتیں یا چند سرکاری افسران عوامی رائے کے برخلاف ملک کے مستقبل کے فیصلے کا اختیار نہیں رکھتے۔‘
محمود خان اچکزئی نے صدارتی انتخاب میں حصہ لے کر کیا حاصل کیا؟
تجزیہ کار عبدالخالق رند کہتے ہیں کہ محمود خان اچکزئی کو پتہ تھا کہ وہ صدر مملکت نہیں بن سکتے مگر کچھ اقدامات کے ذریعے پیغام دینا مقصد ہوتا ہے اور اپنا بیانیہ لوگوں تک پہنچانا ہوتا ہے۔
’محمود خان اچکزئی پارلیمنٹ اور آئین کی بالادستی سے متعلق اپنا دیرینہ مؤقف رکھتے ہیں۔ اپنا یہ بیانیہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے انہیں پی ٹی آئی جیسا بڑا پلیٹ فارم میسر آیا جس کا انہوں نے بھر پور فائدہ اٹھایا۔‘
سیاسی تحریکوں پر نظر رکھنے والے محقق سرتاج خان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کا ساتھ دینے کی محمود خان اچکزئی کی حکمت عملی کوئی بڑی بات نہیں۔ سیاست میں توجہ کا مرکز رہنا اہم ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی کی حمایت لے کر صدارتی انتخاب میں حصہ لے کر انہیں خاصی توجہ ملی ہے۔ اس وجہ سے انہیں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا، ان کے گھر پر چھاپے مارے گئے لیکن اس کے نتیجے میں ان کی پارٹی اور کارکن متحرک بھی ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ محمود خان اچکزئی کی جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی حالیہ سالوں میں اندرونی مشکلات اور تقسیم کا شکار ہوئی جس کے باعث ان کی انتخابی سیاست پر بہت برا اثر بھی پڑا۔ ان کے مخالف دھڑے کے خوشحال کاکڑ کو نوجوانوں کی زیادہ حمایت حاصل ہے چونکہ پی ٹی آئی پشتونوں کی بڑی جماعت ہے۔ خیبر پشتونخوا اور بلوچستان میں بھی نوجوانوں کا رجحان پی ٹی آئی کی طرف ہے اس لیے محمود خان اچکزئی پی ٹی آئی کے ذریعے نوجوانوں کی توجہ اور حمایت حاصل کر کے توازن پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
سرتاج خان کے مطابق ’مرکز کی دو بڑی جماعتوں خاص کر پیپلز پارٹی نے سرفراز بگٹی جیسے لوگوں کو اپنا حصہ بنایا جن کی صوبے میں محمود خان اچکزئی مخالفت کرتے رہے ہیں یہ ان کے لیے دھچکا تھا۔ اس طرح انہیں پی ٹی آئی کی جانب دھکیلا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انتخابات میں جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ اب سب سے بڑا مسئلہ مستقبل قریب کا ہے۔ بہت سے لوگوں کی طرح محمود خان اچکزئی بھی شاید یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت زیادہ دیر نہیں چلے گی تو وہ مستقبل کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کر کے زیادہ فائدہ لے سکتے ہیں۔
پشتونخوا میپ کے رہنما عبدالرحیم زیارتوال کا کہنا تھا کہ سیاسی فائدے اور نقصان سے قطع نظر ہم نے ہمیشہ ان قوتوں کی مدد کی ہے جنہوں نے پارلیمنٹ کی خود مختاری، آئین کی بالادستی اور جمہور کی حکمرانی کی بات کی۔ ماضی میں ہم نے اسی بنیاد پر نواز شریف، آصف زرداری، بے نظیر بھٹو، مولانا فضل الرحمان کا ساتھ دیا۔ آج تحریک انصاف اس راستے پر چل پڑی ہے تو ہم اسی لیے ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اپنا مؤقف یا صف بندی تبدیل نہیں کی۔ باقی جماعتیں تبدیل کرتی ہیں۔ ہم آئندہ بھی آئین، پارلیمنٹ، جمہوریت اور ملک میں آباد تمام قوموں کی برابری کی بات کرنے والوں کی صف میں کھڑے رہیں گے۔‘