محمود اچکزئی نے صدارتی الیکشن کے حوالے سے کہا کہ ’یہ ایک اچھی روایت پڑ گئی ہے‘ (فوٹو: قومی اسمبلی ایکس اکاؤنٹ)
پاکستان پیپلز پارٹی (پارلیمنٹیرینز) کے صدر آصف علی زرداری 411 ووٹ حاصل کر کے ملک کے 14 ویں صدر منتخب ہوگئے ہیں۔
اُن کے مقابلے میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی 181 ووٹ حاصل کر سکے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق ’صدر کے انتخاب کے لیے الیکٹورل کالج میں مجموعی 1185 نشستیں ہیں جن میں سے 92 نشستیں اس وقت خالی ہیں۔‘
الیکشن کمیشن نے انتخابی نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ ’صدارتی انتخاب میں 1093 ووٹرز نے حصہ لینا تھا، تاہم صدر کے انتخاب میں 1044 ارکان نے اپنا ووٹ ڈالا ہے۔‘
’کاسٹ کیے گئے ووٹوں میں سے 1035 درست قرار پائے ہیں۔الیکشن کمیشن سرکاری نتیجہ فارم 7 پر تیار کر کے وفاقی حکومت کو اتوار کے روز ارسال کرے گا۔‘
صدارتی الیکشن کا نتیجہ آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف اور صدر کے انتخاب کے لیے اُن ہی کے نامزد کردہ امیدوار محمود خان اچکزئی کے مخلتف بیانات سامنے آئے ہیں۔
محمود خان اچکزئی نے سنیچر کو پارلیمنٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صدارتی انتخاب کے پورے عمل کو سراہا جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے صدارتی الیکشن کو مسترد کردیا۔ محمود خان اچکزئی نے صدارتی انتخاب کے نتائج پر کیا تبصرہ کیا؟
صدارتی الیکشن ہارنے کے بعد سنی اتحاد کونسل کے امیدوار محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ’الیکشن اچھے ماحول میں ہوا، یہ نئے دور کا آغاز ہے کہ ووٹ خریدنے اور بیچنے کا عمل نہیں ہوا۔‘
اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر گفتگو کرتے ہوئے اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’سردار اختر مینگل کا مشکور ہوں کہ انہوں نے گھر میں بیماری ہونے کے باوجود اسلام آباد آکر مجھے ووٹ دیا۔‘
پشتونخوا میپ کے سربراہ نے کہا کہ ’بلوچستان اسمبلی میں اختر مینگل کی پارٹی کا رکن نہیں تھا اس لیے وہاں سے ایک بھی ووٹ نہ ملنے پر افسوس ہوا۔‘
انہوں نے صدارتی الیکشن کے ماحول کو بہتر قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک اچھی بات ہے اور اچھی روایت پڑ گئی ہے۔‘
پاکستان تحریک انصاف کا صدراتی الیکشن پر ردعمل
آصف علی زرداری کے صدر منتخب ہونے پر پاکستان تحریک انصاف نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ’چوری شدہ مینڈیٹ پر جعلی حلف اٹھانے والے ارکان کے ووٹ کی بنیاد پر ریاست کے سربراہ کا انتخاب سراسر غیرآئینی اور ناقابلِ قبول ہے۔‘
ترجمان تحریک انصاف نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ’عدالتی حکم کی توہین کرکے مخصوص نشستوں پر غیرمنتخب ارکان سے حلف لے کر صدارتی انتخاب کے نام پر تماشا رچایا گیا۔‘
’قومی و صوبائی اسمبلیوں کی تمام مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان کے ساتھ الیکٹورل کالج مکمل کیے بغیر صدارتی انتخاب کا انعقاد پاکستان کے آئین کے منافی اور غیرقانونی ہے۔‘
پی ٹی آئی کے مرکزی ترجمان کے مطابق ’عوام کے مینڈیٹ کے بعد عدالتی حکم کو پیروں تلے روند کر مستردشدہ افراد کو قومی و پنجاب اسمبلی کا رکن بنانا عدلیہ کی خودمختاری پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔‘
’صدر کے الیکشن میں مخصوص نشستوں پر غیرمنتخب ارکان اور جعلی فارم 47 کی بنیاد پر اسمبلی میں بیٹھنے والوں کے ووٹ کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی۔‘
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’تحریک انصاف کے مینڈیٹ پر شب خون مار کر اسے مخصوص نشستوں کے آئینی حق سے محروم کرنے کا مقصد ایک مستردشدہ شخص کو ملک کے سب سے بڑے آئینی عہدے پر فائز کرنا ہے۔‘
سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی اور محمود خان اچکزئی کی منقسم رائے دونوں کی مخلتف سیاسی حکمت عملی کی عکاسی کرتی ہے۔
سینیئر تجزیہ کار عامر ضیا نے اُردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’پاکستان تحریک انصاف پہلے ہی یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ وہ حکومت کو ٹف ٹائم دے گی۔‘
’پی ٹی آئی کا صدارتی انتخاب پر ردعمل میرے لیے حیران کن نہیں کیونکہ وہ پہلے سے ہی اس الیکشن پر سوالات اٹھا رہی تھی۔‘
پشتونخوا میپ کے سربراہ کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے عامر ضیا کا کہنا تھا کہ ’محمود خان اچکزئی کا بیان اس اعتبار سے درست ہے کہ صدارتی انتخاب کے لیے شفاف پولنگ ہوئی ہے۔‘
’مجلس شوریٰ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں کسی قسم کی دھاندلی نہیں ہوئی اس لیے انہوں نے انتخابی عمل کو سراہا ہے۔‘
عامر ضیا کے مطابق ’محمود خان اچکزئی پی ٹی آئی کے امیدوار ضرور تھے مگر وہ پی ٹی آئی کا حصہ نہیں ہیں اس لیے وہ اس کی رائے سے اختلاف کر سکتے ہیں۔‘
’پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ الیکشن سے قبل اور بعد میں مخصوص نشستوں کے معاملے تک جو کچھ ہوا ہے اِسی مجموعی فضا کے سبب انہوں نے صدارتی الیکشن کو بھی مسترد کیا ہے۔‘
سینیئر تجزیہ کار رحمان اظہر نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’پی ٹی آئی سولو فلائٹ لینے کی عادی ہے۔یہ پارٹی مزاحمتی سیاست کرتی ہے جبکہ دیگر سیاسی جماعتیں بات چیت سے آگے بڑھنا پسند کرتی ہیں۔‘
’محمود اچکزئی اور پی ٹی آئی کے بیانات میں تضاد بھی اسی حکمتِ عملی کو ظاہر کرتا ہے۔پی ٹی آئی کے لیے یہ بڑا چیلنج ہو گا کہ وہ دیگر سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چل پائے گی کہ نہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’صدارتی الیکشن پر اپوزیشن منقسم نظر آئی ہے۔جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) نے صدارتی انتخاب کے عمل میں شمولیت اختیار ہی نہیں کی۔‘
رحمان اظہر کے مطابق ’نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے ووٹ تو آصف علی زرداری کو دیا ہے مگر وہ اپوزیشن میں ہی بیٹھیں گے۔‘
’اس ساری صورتِ حال کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صدارتی الیکشن پر اپوزیشن میں کچھ زیادہ ہی تقسیم نظر آئی۔‘