Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی آئی میں ’اندرونی اختلافات‘ اور ’دھڑے بندی‘، مستقبل کیا ہوگا؟

تحریک انصاف کے اندر اس وقت سیاست دانوں اور وکلا کے دھڑے الگ الگ ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
اگرچہ آٹھ فروری کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو بڑی تعداد میں ووٹ ملے لیکن پارٹی کے اندر دھڑے بازی، عوامی سطح پر ان مختلف دھڑوں کے درمیان محاذ آرائی، پاور پالیٹکس، بے انتظامی اور فیصلہ سازی کے فقدان جیسے کئی عوامل مبصرین کے خیال میں اس جماعت کو کمزور کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔
سیاست دانوں اور وکلا کے دھڑے 
تحریک انصاف کے اندر اس وقت سیاست دانوں اور وکلا کے دھڑے الگ الگ ہیں جبکہ وکلا کے اندر کئی گروپ بھی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ ان دھڑوں اور گروہوں کی ایک دوسرے کے خلاف میڈیا اور سوشل میڈیا پر بیان بازی یہ تأثر دیتی ہے کہ اس جماعت کا کوئی انتظامی ڈھانچہ ہی موجود نہیں۔ 
اس پر مستزاد یہ کہ پارٹی کے سینیئر اراکین اور پاکستان سنی اتحاد (جس میں تحریک انصاف کے منتخب اراکین پارلیمنٹ شامل ہوئے ہیں) کے سربراہ حامد رضا کے درمیان بھی سخت بیانات کا تبادلہ ہوا ہے جس سے دونوں جماعتوں کے مابین قائم اعتماد کی فضا کو ٹھیس پہنچی ہے۔ 
پی ٹی آئی کا حقائق سے آنکھیں چرانا 
پیر کو ہونے والے پارٹی کے کور کمیٹی اجلاس کے بعد جاری کیے گیے اعلامیے میں جماعت کے اندر کسی بھی قسم کے اختلافات کی تردید کی گئی ہے۔ 
اس سے قبل پارٹی کے سینیئر رہنما اسد قیصر نے بھی اپنے بیان میں کہا تھا کہ پارٹی رہنماؤں میں کوئی بڑا اختلاف موجود نہیں ہے۔ 
پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن نے بھی ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پارٹی رہنماؤں کے مختلف بیانات کو ہوا دے کر اختلافات کا رنگ دیا جا رہا ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ ’اصل مسئلہ پارٹی رہنماؤں کو عمران خان تک رسائی نہ دینا اور ان سے ملاقات نہ کروانا ہے اور اسی وجہ سے کنفیوژن پھیل رہی ہے۔

پی ٹی آئی کے کور کمیٹی اجلاس کے بعد اعلامیے میں جماعت کے اندر کسی بھی قسم کے اختلافات کی تردید کی گئی۔ فوٹو: اے ایف پی

عمران خان تک عدم رسائی کے اثرات
رؤف حسن نے کہا کہ جو لوگ عمران خان سے ملنے جاتے بھی ہیں، ان کو بھی کاغذ، قلم لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اور ملاقات کرنے والے کو ان کے ساتھ کی گئی باتیں زبانی یاد کرنا اور باہر آ کر بیان کرنا پڑتی ہیں جس کی وجہ سے الجھن پیدا ہوتی ہے۔
رؤف حسن کے مطابق پارٹی نے اس مسئلے کا جائزہ لیا ہے اور کوشش کی جا رہی ہے کہ آئندہ عمران خان یا پارٹی پالیسی بیان کرتے وقت کوئی کنفیوژن نہ  ہو۔
 ’سیاست دان سیاسی معاملات طے کریں اور وکلا اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔‘
رؤف حسن اور ان کی پارٹی کی وضاحتیں اپنی جگہ مگر پی ٹی آئی کا اندرونی لڑائیوں کے حوالے سے ریکارڈ کافی خراب رہا ہے۔
خود چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان اور شیر افضل مروت متعدد مرتبہ آپس میں صلح کرنے کے باوجود بار بار آمنے سامنے آئے ہیں۔ 
شیر افضل مروت نہ صرف بیرسٹر گوہر بلکہ پارٹی کے کئی دیگر افراد کے متعلق کھل کر میڈیا میں بیان بازی کر چکے ہیں۔ 
بیرسٹر گوہر علی خان نے منگل کو ایک مرتبہ پھر شیر افضل مروت کے سنی اتحاد کونسل سے اتحاد پر تنقیدی بیان کے جواب میں کہا ہے کہ ان سے اتحاد کا فیصلہ بالکل ٹھیک ہے۔ 
مبصرین کا خیال ہے کہ جب تک عمران خان جیل سے واپس آ کر پارٹی کا مکمل کنٹرول واپس حاصل نہیں کرتے تب تک ایسی چپقلشیں چلتی رہیں گی۔
PTI Leaders Marwat & Gohar Patch Up Differences, Ending Speculations
چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان اور شیر افضل مروت متعدد مرتبہ آمنے سامنے آئے ہیں۔ فوٹو: سکرین گریب

سینیئر تجزیہ کار ضیغم خان سمجھتے ہیں کہ اس وقت پی ٹی آئی کے اندر پاور پالیٹکس ہو رہی ہے اور یہ مستقبل میں بھی چلتی رہے گی۔ 
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ضیغم خان نے تبصرہ کیا کہ پارٹی کے اندر موجود وکلا اور سیاست دانوں میں گروہ بندی ہے اور سب کی عمران خان تک رسائی نہیں ہے جس کی وجہ سے اختلافات میں شدت آئی ہے۔ 
’عمران خان سے صرف وکیل مل سکتے ہیں اور بہت کم سیاست دانوں کو ان سے ملاقات کا موقع ملا ہے۔ اس وجہ سے سیاست دانوں کی دل شکنی ہوتی ہے اور یہ خدشہ بھی لاحق ہوتا ہے کہ وکیل قیادت کے زیادہ قریب ہو رہے ہیں۔‘
پارٹی کے اندر پاور فائٹ
ضیغم خان کے مطابق ’پھر ہر کوئی پارٹی میں اپنی جگہ بنانے کے لیے لڑائی بھی لڑ رہا ہے اور اس لیے بھی بڑھ چڑھ کر بیانات دیے جا رہے ہیں۔‘
 اگرچہ پی ٹی آئی کے کچھ ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ عمران خان ذاتی مقبولیت قائم رکھنے کے لیے خود بھی مختلف پارٹی رہنماؤں کو متضاد ٹاسک دے کر ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کرتے ہیں تاہم ضیغم خان کہتے ہیں کہ انہیں اس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ پارٹی کا ووٹر ان کے ساتھ ہے نہ کہ دوسرے رہنماوں کے ساتھ۔
ان کے مطابق ایسی چپقلش جنوبی ایشیائی سیاست کی روایت ہے اور ماضی میں دیگر سیاسی جماعتوں کے اندر بھی شدید لڑائیاں رہی ہیں لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی کی فیصلہ سازی پر اس کا اثر ہو رہا ہے۔ 
’ماضی میں پیپلز پارٹی میں بھی دھڑے رہے ہیں اور وہ لوگ تو ایک دوسرے کو ڈنڈوں سے مارپیٹ کرتے تھے۔ پی ٹی آئی میں ایسا نہیں ہو رہا لیکن اس کے باوجود ان کے باہمی اختلافات پارٹی کی فیصلہ سازی اور عمومی تاثر پر اثر انداز ہو رہے ہیں جو کہ ایک منفی عمل بہرحال ہے۔‘ 

عمران خان کے منظر سے ہٹنے کے بعد جماعت کی نچلے درجے کی قیادت اچانک سے ابھر کر سامنے آ گئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

معروف تاریخ دان اور قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر الہان نیاز کے مطابق دنیا میں سیاسی بحثوں کو ایک مثبت بات سمجھا جاتا ہے لیکن پاکستان میں لوگ اس کو انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور پی ٹی آئی رہنماؤں کے اختلافات کے پیچھے بھی یہی ثقافت ہے۔ 
انہوں نے کہا ’ہمارے ہاں جھگڑا انا یا باس کو خوش کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ بیان بازی میں ایک دوسرے سے آگے نکل جاتے ہیں۔‘
ناتجربہ کار قیادت اور ڈسپلن کا فقدان 
ڈاکٹر الہان نیاز کا ماننا ہے کہ پی ٹی آئی رہنماؤں کے اختلافات عوامی طور پر ظاہر ہونے اور ان کی باقاعدہ چپقلش کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس جماعت کی تیسرے یا اس سے بھی نچلے درجے کی قیادت اچانک سے ابھر کر سامنے آ گئی ہے اور وہ سیاسی معاملات میں ناتجربہ کار ہے۔
’عمران خان اور ان کے ساتھ دوسرے درجے کی قیادت کے جیل جانے یا پارٹی چھوڑ جانے کے بعد تیسرے یا اس سے بھی نچلے درجے کی قیادت اوپر آ گئی ہے۔ پھر 8 فروری کے انتخابات میں بہت سارے نئے لوگ پہلی دفعہ منتخب ہو کر اسمبلی میں پہنچے ہیں، جن کو منظم کرنے کے لیے پارٹی میں اعلٰی قیادت موجود نہیں ہے، جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ مختلف خیالات کے لوگوں کی سوچوں کا فرق شدید اختلافات میں ڈھل رہا ہے۔‘ 
الہان نیاز کے خیال میں بھی اختلافات کی ایک وجہ عمران خان تک سب کی رسائی نہ ہونا ہے جس کا پارٹی کو واقعی نقصان ہو رہا ہے۔

پی آئی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پارٹی رہنماؤں کے مختلف بیانات کو ہوا دے کر اختلافات کا رنگ دیا جا رہا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

تحریک انصاف کی بقا اور عمران خان کے بعد مستقبل کا سوال 
الہان نیاز کے خیال میں تحریک انصاف کا خاندانی جماعت نہ ہونا، اور یہ سوچ کہ خان کے بعد پارٹی میں کون سامنے آئے گا یا کیا پارٹی ختم ہو جائے گی بھی، اس کے مسائل میں اضافے کا باعث ہے۔ 
’ویسے تو کسی بھی سیاسی جماعت کو لمبے عرصے تک قائم نہیں رہنا چاہیے لیکن تحریک انصاف کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ ایک سوچ منسلک ہے کہ عمران خان کے بعد پارٹی نہیں رہے گی یا پھر اس کی قیادت کس کے ہاتھ میں آئے گی۔ اس وجہ سے بھی اس کے دوسرے اور تیسرے درجے کے رہنما ایک دوسرے سے آگے جانے کی تگ و دو میں ہوتے ہیں اور پھر ان کے اختلافات سامنے آ جاتے ہیں۔‘

شیئر: