’اب بھی خوف آتا ہے‘، دو برس قبل گلے پر ڈور پھرنے سے زخمی ہونے والے محمد باسط
’اب بھی خوف آتا ہے‘، دو برس قبل گلے پر ڈور پھرنے سے زخمی ہونے والے محمد باسط
جمعہ 29 مارچ 2024 6:01
زین علی -اردو نیوز، کراچی
ملک بھر پتنگ بازوں کے خلاف کریک ڈاون کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ فائل فوٹو: اے پی پی
فیصل آباد میں گزشتہ ہفتے گلے پر کٹی پتنگ کی ڈور کے پھرنے سے نوجوان کی ہلاکت نے جہاں ملک بھر میں ہر صاحبِ دل کو افسردہ کیا وہیں کراچی کے محمد باسط کے زخم بھی ہرے ہو گئے جو اسی طرح کے ایک حادثے میں شدید زخمی ہو گئے تھے۔
محمد باسط نے اردو نیوز سے گفتگو میں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی تلخ یادیں تازہ کیں۔ انہوں نے کہا کہ ’سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں ایک موٹرسائیکل سوار سڑک کنارے گرتا ہے اور اس کے گلے سے خون بہنے لگتا ہے تو اپنے گلے پر ایک بار پھر ڈور پھرتی محسوس ہوئی۔‘
محمد باسط کے مطابق وہ شام پانچ بجے کے قریب موٹرسائیکل پر اپنے گھر سے لیاقت آباد 10 نمبر کی طرف جا رہے تھے جب اچانک انہیں گلے میں تکلیف محسوس ہوئی اور وہ چند ہی سیکنڈز میں اپنی موٹر سائیکل سے گر گئے۔ ’گلے پر ہاتھ لگایا تو خون سے تر ہو گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’چند لمحات تک ہوش رہا کہ زمین پر گر گیا ہوں، اور لوگ اردگرد جمع ہو رہے ہیں لیکن جب ہوش میں واپس آیا تو معلوم ہوا کہ میرا گلہ کسی تیز دھار چیز سے کٹ گیا ہے اور میں کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں زیرعلاج ہوں۔‘
محمد باسط بتاتے ہیں کہ 'ان کا گلہ پتنگ کی ڈور پھرنے سے اس وقت کٹا تھا جب وہ کسی کام سے لیاقت آباد کے علاقے سے گزر رہے تھے۔ لیاقت آباد انڈر پاس کے قریب ایک پتنگ کی ڈور ان کے گلے پر پھر گئی تھی۔ موٹرسائیکل کی رفتار زیادہ ہونے کی وجہ سے محسوس ہی نہیں ہوا کہ ڈور کہاں سے آئی اور کیسے ہیلمٹ کے شیشے سے اٹک کر گلے پر پھر گئی۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'ہیلمٹ پہنا تھا اس لیے سر پر چوٹ تو نہیں آئی لیکن موٹر سائیکل سے گرنے کی وجہ سے ہاتھ اور پیروں پر زخم آئے تھے۔ کئی دن ہسپتال میں زیرِعلاج رہا، گھر والوں نے یہ دن بہت تکلیف اور مشکل میں گزارے۔'
انہوں نے بتایا کہ 'والدہ کو جب میرے بارے میں معلوم ہوا تو وہ خود کو سنبھال نہ سکیں، ہم دو ہی بھائی ہیں اور والد کے انتقال کے بعد بڑا بیٹا ہونے کی وجہ سے والدہ مجھ پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں۔ میری حالت دیکھ کر ان کی طبیعت بھی خراب ہو گئی تھی۔'
محمد باسط کے چھوٹے بھائی محمد سلمان اس دن کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ 'یہ ہمارے لیے بڑی آزمائش کا وقت تھا۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ میرے بھائی کو تشویش ناک حالت میں ہسپتال لایا گیا اور خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے ان کی حالت خطرے میں ہے جس کے باعث آئندہ 48 گھنٹے انتہائی اہم ہیں۔ ایک جانب بھائی کی یہ حالت تھی تو دوسری جانب والدہ کی طبیعت سنبھل نہیں رہی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ 'اس حادثے نے ان کے اگلے 5 روز مشکل بنا دیے تھے کیوں کہ گھر میں سوگ اور پریشانی کی کیفیت تھی۔ تین دن بعد ڈاکٹر کی جانب سے بتایا گیا کہ بھائی کی طبیعت میں بہتری آ رہی ہے، اور ان کی حالت اب خطرے سے باہر ہے۔ ان کے گلے پر 14 ٹانکے لگے ہیں، اور آئندہ چند روز تک وہ خوراک نلکی کے ذریعے لیں گے اور بات بھی کم کریں گے۔'
محمد سلمان نے بتایا کہ 'مجھ سمیت تمام گھر والوں کے لیے یہ بڑی خوشخبری تھی، ہم نے اس بارے میں والدہ کو بتایا کہ باسط بھائی کی حالت اب خطرے سے باہر ہے اور وہ جلد ہی ہسپتال سے گھر منتقل ہوجائیں گے جس پر والدہ نے سکھ کا سانس لیا۔'
اپنے ساتھ گزرے واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے محمد باسط کہتے ہیں کہ 'اس وقت کے بارے میں جب بھی سوچتا ہوں تو خوف آتا ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'تین چھوٹے چھوٹے بچوں کا ساتھ تھا، اور میری کوئی غلطی بھی نہ تھی، مجھے اگر کچھ ہو جاتا تو میرے گھر والوں کا کیا ہوتا؟'
انہوں نے پتنگ بازی کا شوق رکھنے والوں سے اپیل کی کہ 'پتنگ باز اپنے شوق کے لیے ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے کسی کے گھر میں سوگ اور ماتم ہو جائے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'میرے ساتھ جو واقعہ پیش آیا اس میں میری زندگی تو بچ گئی لیکن کراچی سمیت ملک بھر میں آئے روز یہ خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ پتنگ کی ڈور سے کسی کی جان چلی گئی۔ کچھ لمحوں کے شوق کی تکمیل کے لیے اگر کسی خاندان کا سب کچھ لٹ جائے تو ایسے شوق کا کیا فائدہ؟'
خیال رہے کہ ملک بھر میں پتنگ بازوں کے خلاف کریک ڈاون کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن اس کے باوجود پتنگ باز کراچی سمیت ملک کے دیگر شہروں میں پتنگ بازی کررہے ہیں۔
کراچی کے علاقے لیاقت آباد، لیاری ، فیڈرل بی ایریا، ناظم آباد، نیو کراچی، ملیر، کورنگی سمیت کئی علاقوں میں اب بھی پتنگ بازی کا سامان کھلے عام فروخت کیا جا رہا ہے جب کہ بولٹن مارکیٹ اور صدر بازار میں ان کے ہول سیل ڈیلرز بھی آزادانہ طور پر اپنا کاروبار کرتے نظر آرہے ہیں۔
حکومت کی جانب سے ان کے خلاف وقتی طور پر علاقائی سطح پر کارروائی تو کی جاتی ہے لیکن مستقل بنیادوں پر کوئی ایکشن پلان دکھائی نہیں دے رہا۔