ڈرون سے مانیٹرنگ اور کریک ڈاؤن، پولیس پتنگ بازی روکنے میں ناکام کیوں؟
ڈرون سے مانیٹرنگ اور کریک ڈاؤن، پولیس پتنگ بازی روکنے میں ناکام کیوں؟
جمعہ 29 مارچ 2024 5:55
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
20 برسوں سے پتنگ بازی پر جاری حکومتی جنگ کے باوجود اس کھیل کا اس طرح سے موجود رہنا بھی ایک سوال ہے (فائل فوٹو: عرب نیوز)
پاکستان میں پتنگ بازی ایک بار پھر موضوع بحث ہے اور خاص طور پر پنجاب میں حکومتی سطح پر اس کی روک تھام کے لیے پوری ریاستی مشینری متحرک ہے۔
اس تحریک کی وجہ بننے والا فیصل آباد کا وہ واقعہ ہے جس میں گذشتہ دنوں ایک 22 سالہ نوجوان آصف اشفاق افطاری کے وقت گھر جاتے ہوئے تیز دھار ڈور کا شکار بنا۔
سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سفید کپڑوں میں ملبوس ایک نوجوان اچانک موٹرسائیکل سے گرتا ہے اور اپنا گلہ تھام لیتا ہے جس سے خون کے فوارے نکل رہے ہوتے ہیں۔
پولیس کے مطابق اس نوجوان کو قریبی ہسپتال منتقل کیا گیا، لیکن خون اتنا بہہ چکا تھا کہ وہ جانبر نہ ہو سکا۔ اس واقعے کا نوٹس پنجاب کی وزیراعلٰی مریم نواز نے بھی لیا اور اس نوجوان کے گھر پرسہ دینے بھی پہنچ گئیں۔
اس کے بعد انہوں نے پنجاب پولیس کو حکم جاری کیا ہے کہ پتنگ بازی کرنے والوں، پتنگیں بیچنے والوں اور تیار کرنے والوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے۔
پاکستان میں گذشتہ دو دہائیوں سے پتنگ بازی پر پابندی ہے، لیکن اس کے باوجود ہر سال بہار کے موسم میں اس کھیل کے شوقین کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے ہیں جس کے نتیجے میں کئی جانیں بھی ضائع ہو جاتی ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ قانون اور پولیس کی سختی کے باوجود خفیہ طریقے سے اس کھیل کا سازوسامان بنانے اور ترسیل کرنے کا عمل رُک نہیں رہا۔
یہی وجہ ہے کہ ایک طرف تو حکومت اس عمل میں حصہ لینے والوں کے خلاف سختی کر رہی ہے تو دوسری طرف خود وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز نے موٹرسائیکلوں پر حفاظتی انٹینے یا سیفٹی وائر گارڈز لگانے کی مہم کا آغاز بدھ کو لاہور میں کیا۔ پتنگ بازی کا نیٹ ورک اتنا مضبوط کیوں؟
20 برسوں سے پتنگ بازی پر جاری حکومتی جنگ کے باوجود اس کھیل کا اس طرح سے موجود رہنا بہرحال ایک سوال تو ہے۔
تاہم سماجیات پر گہری نظر رکھنے والے اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ بسنت اور بہار کا تعلق بہت پرانا ہے اور یہ اس خطے کے باسیوں کے لاشعور میں ہے۔ البتہ پولیس اس کو اب لاشعور سے شعور میں لانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ڈی آئی جی آپریشن لاہور علی رضوی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پولیس اپنے طور پر پوری کوشش کر رہی ہے، ہر ایس ایچ او کو بتا دیا گیا ہے کہ اگر اس کے علاقے میں پتنگ بازی ہوئی تو وہی ذمہ دار ہوگا۔‘
’ڈرون کیمروں اور دُور بینوں سے ہم نے مانیٹرنگ شروع کر رکھی ہے، لیکن اصل چیلنج سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے پتنگ بازی کی ترسیل کا معاملہ ہے۔‘
اُن کے مطابق ’اس پر اب ہم گھیرا تنگ کر رہے ہیں کیونکہ اب بازار میں آپ کو پتنگ بازی کا سامان نہیں ملتا۔ ہم نے لاہور میں ایک بہت بڑی کھیپ پکڑی ہے۔ اور مزید کارروائیاں بھی جاری ہیں۔‘
خیال رہے کہ گذشتہ برس مارچ میں ہی پولیس نے فیس بُک پر کائیٹ فلائنگ ایسوسی ایشن نامی ایک گروپ کے دو ایڈمنز کو گوجرانوالہ اور راولپنڈی سے حراست میں لیا تھا۔
اس گروپ میں پتنگ اور ڈور فروخت کرنے والے آپس میں رابطے میں آتے تھے۔ علی رضوی کہتے ہیں کہ ’اب بھی ہم سخت مانیٹرنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہماری سوشل میڈیا ٹیمز فعال ہیں جو فلیگ کر رہی ہیں۔‘
’آج ہی لاہور میں ایک ایف آئی آر درج کی گئی ہے جس میں کسی نوجوان نے پتنگ اُڑانے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی تھی۔ ہماری سوشل میڈیا ٹیموں نے فلیگ کیا اور چند ہی گھنٹوں میں ایف آئی آر درج کر کے اسے گرفتار کر لیا گیا۔‘
تاہم ان تمام کوششوں کے باوجود سوشل میڈیا کے ذریعے جاری رہنے والے اس کاروبار اور اس کھیل کے اعدادوشمار حیرت انگیز ہیں۔
پنجاب پولیس کے مطابق ’گذشتہ ایک ماہ کے دوران صوبہ بھر میں اینٹی کائٹ فلائنگ ایکٹ کے تحت 3328 مقدمات درج کر کے 3461 افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔‘
اس حوالے سے پنجاب پولیس کا مزید کہنا ہے کہ ’ملزمان کے قبضے سے 2 لاکھ 12 ہزار 881 پتنگیں اور 14 ہزار 514 چرخیاں برآمد کی گئی ہیں۔‘
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ ’اس وقت ہمارا اصل ٹارگٹ اس کھیل میں مہیا ہونے والے سازوسامان کے نیٹ ورک کو توڑنا ہے، اس کے لیے ہم سول سوسائٹی اور شہرویوں سے بھی تعاون کی اپیل کرتے ہیں۔‘