دارالحکومت انقرہ میں ملیحہ سونمیز نے ووٹ ڈالنے کی تیاری کے دوران انتباہ دیا کہ ’یہ صرف بلدیہ کے انتخابات نہیں ہیں۔‘
ملیحہ جو ایک ریٹائرڈ خاتون ہیں اور گذشتہ برس فروری میں ایک تباہ کن زلزلے میں اپنے 32 رشتے داروں کو کھو چکی ہیں، نے کہا کہ ’اگر اردغان الیکشن ہار گئے تو وہ کمزور ہو گے۔‘
ترک صدر ان انتخابات میں امیدوار نہیں ہیں لیکن انتخابی مہم سے لے کر ووٹنگ تک ان کا نام غالب رہا ہے۔
رجب طیب اردغان کا ترکیہ میں طاقت کا سفر استنبول سے شروع ہوا تھا جب وہ یورپ اور ایشیا کے درمیان موجود اس افسانوی شہر کے سنہ 1994 میں میئر منتخب ہوئے تھے۔
یہ شہر ان کے اتحادیوں کے پاس ہی رہا لیکن پھر سیکولر ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) کے اکرم امام اوغلو نے پانچ برس قبل اس کا کنٹرول سنبھال کر عالمی سرخیوں میں جگہ بنائی۔
جیسے ہی اردغان نے گذشتہ برس مئی میں صدارتی انتخاب دوبارہ جیتا، انہوں نے ایک کروڑ 60 لاکھ کی آبادی پر مشتمل استنبول کو دوبارہ حاصل کرنے کی جنگ شروع کر دی۔
ترک صدر نے استنبول میں ایک حالیہ ریلی سے خطاب میں کہا کہ ’استنبول زیور ہے، یہ خزانہ ہے اور ہمارے ملک کی سب سے قیمتی چیز ہے۔‘
کونڈا ریسرچ اینڈ کنسلٹنسی کے ایک پولسٹر، ارمان باکرسی نے اردغان کی ایک بات کو دہرایا کہ ’جس نے استنبول جیتا اس نے ترکیہ جیتا۔‘
ایک مقامی اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ ترکیہ کے کرد اکثریتی جنوب مشرق میں ایک گاؤں سے مسلح جھڑپوں کی اطلاع ملی ہے جہاں ووٹنگ جاری ہے، جس میں ایک شخص ہلاک اور 12 زخمی ہو گئے ہیں۔
ترک صدر نے استنبول کے میئر کے لیے سابق وزیر ماحولیات مرات کورم کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔
رائے عامہ کے پولز میں امام اوغلو کو معمولی برتری حاصل ہے، لیکن تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ ترکیہ میں رائے عامہ کے جائزے پہلے بھی غلط رہے ہیں اور یہ نتیجہ یقینی نہیں ہے۔
اگر امام اوغلو استنبول کے میئر کی نشست برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو وہ ممکنہ طور پر 2028 کے اگلے صدارتی انتخابات میں حکمراں جماعت کے لیے اہم چیلنج ہوں گے۔