Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ترکیہ میں بلدیاتی انتخابات، اردغان 2019 کی شکست کا بدلہ لے پائیں گے؟

رجب طیب اردغان اے کے پی کی مہم کی قیادت کر رہے ہیں اور ان کی ریلیاں روزانہ ٹیلی ویژن پر نشر کی جاتی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ترکیہ کے عوام اگلی اتوار کو بلدیہ کے انتخابات میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے جبکہ گذشتہ برس عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے صدر رجب طیب اردغان کی نظریں استنبول کو دوبارہ جیتنے پر ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حزب اختلاف کی سیکولر جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) نے سنہ 2019 میں تقریباً 29 برس بعد ترکیہ کے اقتصادی پاور ہاؤس کی حیثیت رکھنے والے شہر استنبول کا کنٹرول دوبارہ حاصل کیا تھا۔
سنہ 2019 کے ان اہم انتخابات میں حزب اختلاف نے دارالحکومت انقرہ میں فتح حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اہم بندرگاہی شہر ازمیر میں بھی اپنا اقتدار برقرار رکھا۔ حزب اختلاف کی ان فتوحات سے صدر رجب طیب اردغان کے سیاسی طور پر ناقابل تسخیر ہونے کی شبیہہ چکنا چور ہو گئی۔
ترک صدر نے ان انتخابات کے لیے اپنے سابق وزیر ماحولیات مرات کورم پر اعتماد کیا ہے۔ کورم 31 مارچ کو استنبول کے میئر کا مقابلہ لڑنے کے لیے میدان میں اتریں گے۔
سی ایچ پی کے اکرم امام اوغلو کا میئر استنبول بننا اردغان کی دو دہائیوں کی حکمرانی میں ان کی بدترین سیاسی شکست تھے اور وہ اب اس کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔
ترکیہ کے طاقتور صدر نے گذشتہ برس ایک سخت صدارتی انتخاب جیت کر سیاسی طور پر واپسی کی۔ یہ انتخابات ایک اقتصادی بحران اور ایک بڑے زلزلے جس نے ترکیہ میں 53 ہزار سے زیادہ جانیں لے لی تھیں، کے سائے میں ہوئے تھے۔
اب اردغان کی نظریں استنبول کو دوبارہ فتح کرنے پر ہیں، یہ وہ شہر ہے جہاں پروان چڑھے اور یہی سے انہوں نے سنہ 1994 میں بطور میئر اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔
امام اوغلو نے سنہ 2019 کے انتخابات میں اردغان کے اتحادی کو باہر کر دیا تھا۔ لیکن ان انتخابات کو متنازعہ طور پر کالعدم قرار دے دیا گیا جس سے یہ بین الاقوامی سرخیاں کی زینت بنے۔

اکرم امام اوغلو کو سنہ 2028 کے صدارتی انتخابات میں اپوزیشن کے بہترین امیدوار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم انہوں نے بھاری مارجن سے دوبارہ ووٹ حاصل کر کے جیت اپنے نام کر لی۔ اس نے انہیں جہاں حزب اختلاف کا ہیرو بنایا وہیں اردغان کا ایک بڑا دشمن بنا دیا۔
52 سالہ اکرم امام اوغلو کو سنہ 2028 میں اردغان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) سے دوبارہ صدارت جیتنے کے لیے اپوزیشن کے بہترین امیدوار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
جیو پولیٹیکل ایڈوائزری فرم مارلو گلوبل کے ڈائریکٹر ریسرچ انتھونی سکنر نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ امام اوغلو ایک موثر سیاسی رہنما ہیں اور اس وقت اردغان اور اے کے پی کی مخالفت کرنے والے حلقوں کے لیے امید کی بہت کم کرنوں میں سے ایک ہیں۔‘
سنہ 2019 میں سی ایچ پی کے امیدوار امام اوغلو کو دوسری سیاسی جماعتوں، جن میں دائیں بازو کی آئی وائے آئی، کرد اور سوشلسٹ شامل تھے، کی وسیع پیمانے پر حمایت حاصل تھی۔ لیکن اس بار سیاسی جماعتوں کی نااتفاقی سے امام اوغلو کئی فیصد پوائنٹس سے محروم ہو سکتے ہیں۔

ترک صدر نے ان انتخابات کے لیے اپنے سابق وزیر ماحولیات مرات کورم پر اعتماد کیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ترک صدر اے کے پی کی مہم کی قیادت کر رہے ہیں اور ان کی ریلیاں روزانہ ٹیلی ویژن پر نشر کی جاتی ہیں، جبکہ اپوزیشن کے امیدواروں کو بہت کم ایئر ٹائم دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ سوشل میڈیا پر زیادہ فعال ہیں۔
مہنگائی کی 67 فیصد شرح کو کم کرنے میں میں حکومت کی ناکامی ان کے امیدوار کی جیت کے امکانات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
رجب طیب اردغان نے اتوار کو استنبول میں ایک بڑی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم 31 مارچ کو ایک نئے دور کا دروازہ کھولیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم بہت محنت کریں گے اور استنبول واپس جیتیں گے۔‘
استنبول کی سبانکی یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر برک ایسن استنبول کو ’ترک سیاست کا سب سے بڑا انعام‘ سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’اس شہر کو دوبارہ جیتنا اردغان کے لیے نہایت اہم ہے۔ ظاہر ہے، یہ ان کا شہر ہے لیکن یہ اس سے آگے ہے۔‘
70 سالہ ترک صدر رجب طیب اردغان کہہ چکے ہیں کہ مارچ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات ان کا آخری سیاسی معرکہ ہیں۔

شیئر: