Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’رِنگ آف فائر‘ میں واقع تائیوان، زلزلوں کی شدت زیادہ لیکن نقصان محدود

تائیوان میں اکثر عمارتیں اس طرز پر تعمیر کی گئی ہیں کہ زلزلے کے جھٹکے سے زمین بوس نہیں ہوتیں۔ فوٹو: اے ایف پی
تائیوان میں پچیس سال کے عرصے میں شدید ترین زلزلہ آیا لیکن کئی برسوں کی تیاری نے بڑی تباہی سے بچا لیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بدھ کو آنے والے اس زلزلے میں نو افراد ہلاک ہوئے اور متعدد عمارتوں کو نقصان پہنچا جبکہ جس شدت کا زلزلہ تھا اس میں کئی گنا زیادہ ہلاکتیں اور تباہی متوقع تھی۔
تائیوان اپنے ہمسایہ ملک جاپان کی طرح جغرافیائی طور پر ایسے خطے میں واقع ہے جو زلزلے کے لحاظ سے زیادہ فعال ہے اور اس مقام کو ’رنگ آف فائر‘ یعنی آگ کا دائرہ بھی کہا جاتا ہے۔
بدھ کو 7.4 شدت کو آنے والا یہ زلزلہ ملک بھر میں محسوس کیا گیا۔ اس سے قبل سال 1999 میں 7.6 شدت کا زلزلہ آیا تھا جس میں چوبیس سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔
یہ زلزلہ اس جزیرے کی تاریخ مہلک ترین قدرتی آفات میں سے ایک تھا۔ لیکن اس کے برعکس گزشتہ سال دیگر ممالک میں شدید زلزلے آئے لیکن تباہی کئی زیادہ تھی۔
چھ فروری 2023 کو ترکی میں شام کی سرحد کے قریب 7.8 شدت کا زلزلہ آیا تھا جس میں 53 ہزار ترک ہلاک ہوئے اور چھ ہزار شام میں۔ جبکہ 3 ہزار عمارتوں کو نقصان پہنچا تھا۔
اس کے بعد ستمبر میں مراکش میں 6.8 شدت کا زلزلہ آیا جس میں تین ہزار افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً 60 ہزار گھروں کو نقصان پہنچا۔
گزشتہ سال ہی اکتوبر کے مہینے میں افغانستان کا صوبہ ہرات 6.3 شدت کے زلزلے سے متاثر ہوا۔ اس میں 12 سو افراد ہلاک اور 40 ہزار عمارتوں کو نقصان پہنچا۔
ماہرین کے خیال میں زلزلے سے ہونے والی تباہی کا انحصار عمارتوں کی تعمیر سے متعلق قواعد و ضوابط پر ہے۔ زلزلے کے دوران لوگوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ کسی بھی عمارت کا گر کر تباہ  ہونا ہے۔

تائیوان میں 7.4 شدت کا زلزلہ آیا لیکن کم سے کم تباہی اور ہلاکتیں ہوئیں۔ فوٹو: اے ایف پی

امریکی جیولاجیکل سروے کے مطابق کئی شدت والے زلزلے آئے لیکن ان سے بہت کم نقصان ہوا کیونکہ عمارتیں اس طرز پر تعمیر کی گئی تھیں کہ جھٹکے کو برداشت کر سکیں۔
’جبکہ ایسا بھی ہوا کہ زلزلے کی شدت کم تھی لیکن جھٹکا شدید تھا کہ عمارتیں برداشت نہیں کر سکیں کیونکہ وہ اس طرح سے ڈیزائن ہی نہیں کی گئی تھیں کہ زلزلے کے جھٹکے کو برداشت کر سکیں۔‘
تائیوان نے زلزلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عمارتوں کی تعمیر کے لیے کئی سالوں سے قوائد و ضوابط ترتیب دے رکھے ہیں جن میں وقطاً فوقطاً رد و بدل کی جاتی ہے۔
تائیوان میں سال 1999 کے زلزلے میں 51 ہزار عمارتیں تباہ ہوئی تھیں اور اتنی ہی تعداد میں متاثر بھی ہوئیں۔
اس کے بعد سے تائیوان نے قوائد و ضوابط میں مزید تبدیلی کی اور زلزلے کا مقابلہ کرنے والے تعمیراتی مواد کو ترجیح دی جس میں ایسی سٹیل کی سلاخوں کا استعمال کیا جاتا ہے جو عمارت کو لچک دار بناتی ہیں۔ یعنی شدید جھٹکے کی صورت میں عمارت گرنے کے بجائے جھولتی ہے یا ٹیڑھی ہو سکتی ہے۔
تائیوان کی حکومت پرانی عمارتوں کو بھی اسی کوڈ کے مطابق مضبوط بنانے پر زور دیتی آئی ہے۔ زلزلے کے دوران یہی پرانی عمارتیں سب سے زیادہ تشویش کا باعث ہوتی ہیں۔ تاہم ان کے ڈھانچے کو مزید مضبوط بنانے کے لیے فنڈز کی کمی کے مسائل درپیش ہیں۔
عمارتوں کو مضبوط کرنے کے علاوہ تائیوان نے جدید وارننگ سسٹم ترتیب دیا ہوا ہے جو سیکنڈز کے اندر ممکنہ شدید جھٹکے کے خطرے سے عوام کو آگاہ کر دیتا ہے۔

تائیوان میں 1999 میں 7.6 شدت کا زلزلہ آیا تھا جس میں چوبیس سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ اس نظام کو مزید جدید بنایا گیا اور اب سمارٹ فونز اور تیز رفتار انٹرنیٹ کے باعث دور دراز کے علاقوں میں بھی ممکنہ خطرے کی گھنٹی فوری پہنچ جاتی ہے۔
حکام کے مطابق تائیوان میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں زلزلے ریکارڈ کیے جاتے ہیں لیکن ان میں سے چند ہی اتنے شدید ہوتے ہیں کہ محسوس کیے جائیں۔
جاپان کی طرح تائیوان میں بھی کسی قسم کی قدرتی آفت سے نمٹنے کی تیاری کلچر کا حصہ بن چکی ہے اور سکولوں اور دفاتر میں اس حوالے سے اکثر مشقیں کی جاتی ہیں۔

شیئر: