یونان کشتی حادثہ، انسانی سمگلروں کے خلاف کارروائیوں کا کیا نتیجہ نکلا؟
یونان کشتی حادثہ، انسانی سمگلروں کے خلاف کارروائیوں کا کیا نتیجہ نکلا؟
ہفتہ 13 اپریل 2024 5:59
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
یورپ جانے کے لیے کشتیوں میں اکثر خواتین اور بچے بھی سوار ہوتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
’جب وہ گھر سے روانہ ہوا تو امید پیدا ہوئی تھی کہ اب دن پھرنے والے ہیں اور جلد ہی غربت کا سورج ڈھل جائے گا لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ اس کے جانے کے کچھ ہی مہینوں بعد ہم زندگی میں پہلی بار کسی سے راشن مانگ کر رمضان گزاریں گے۔ بھوک ننگ تھی لیکن وہ تو ساتھ تھا۔‘
یہ کہنا ہے یونان کشتی حادثہ کا شکار ہونے والے گجرات کے شہری میاں بوٹا کے اہل خانہ کا جو اپنے اکلوتے کفیل کی موت کے بعد کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
گزشتہ برس جون میں یونان میں ایک کشتی ڈوبی تھی جس میں 350 پاکستانی بھی شامل تھے۔ پاکستان میں اس وقت کے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے اس حادثے میں 281 شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔ 12 پاکستانی زندہ بچ گئے تھے جبکہ 16 پاکستانیوں کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی تھی۔ باقی لاشوں کی شناخت ہی ممکن نہیں ہو سکی تھی۔
میاں بوٹا ابھی 15 سال کا تھا کہ اپنے ارد گرد کے حالات کو دیکھتے ہوئے پیسے کمانے اور غربت مٹانے کا جنون سر پر سوار ہوا۔ زمین بیچ کر ایجنٹ کو پیسے دیے اور کوئٹہ، تفتان، ایران اور ترکی کے راستے یونان پہنچا۔ کئی سال وہاں سیٹل ہونے کی کوشش کی، لیکن کامیاب نہ ہو سکا اور وطن واپس آ گیا۔
کچھ سال پاکستان میں گزارے، زمینداری کرتا رہا۔ کچھ عرصہ پہلے والدین نے شادی کی۔ ایک بار پھر غربت نے سر اٹھایا تو اپنے بیوی بچوں کے مستقبل کی خاطر گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ ابھی لیبیا ہی پہنچا تھا کہ پیچھے سے والد داغ مفارقت دے گئے اور وہ اپنے والد کی میت کو کندھا دینے سے بھی محروم رہا۔
والد کی وفات کو شاید 10 دن ہی گزرے تھے کہ اطلاع آئی کہ لیبیا سے یونان جانے والی کشتی ڈوب گئی ہے اور وہ بھی اس کا مسافر تھا۔
جب یہ حادثہ ہوا تھا اس وقت عید قرباں میں کچھ ہی دن باقی تھے اور اب عیدالفطر کا موقع ہے جس نے میاں بوٹا سمیت اس کشتی حادثہ میں جان سے جانے والے ضلع گجرات کے 50 کے قریب خاندانوں کے زخم تازہ کر دیے ہیں۔
کشتی حادثہ کا شکار ہونے والے نوجوانوں کے اہل خانہ اس موضوع پر بات کرنے سے بھی کتراتے ہیں کہ کہیں ان کے ضبط کا بندھن ٹوٹ نہ جائے۔
اردو نیوز نے میاں بوٹا کے اہل خانہ سے بالواسطہ رابطہ کر کے حالات و واقعات جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ انھوں نے غربت اور تنگ دستی کے باوجود کبھی زندگی میں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا تھا لیکن اب کی بار پہلی بار انھوں نے رمضان میں کسی سے راشن لیا ہے۔
ان کے ایک قریبی عزیز نے بتایا کہ ابتدا میں ایف آئی اے کی ٹیم آئی تھی پوچھ گچھ کی تھی لیکن اس کے بعد کوئی نہیں آیا اور ایجنٹ بھی گرفتار نہیں ہوا۔
انھوں نے بتایا کہ ’میاں بوٹا کے اہل خانہ کا کوئی کفیل نہیں ہے۔ ان کا ایک چھوٹا بھائی ہے لیکن وہ ذہنی طور پر معذور ہے۔ والدہ بہنیں اور بیوہ اب رشتہ داروں کے سہارے گزارہ کر رہی ہیں۔ کچھ دن پہلے سرکاری ٹیم آئی اور انھوں نے میاں بوٹا کے اہل خانہ کو راشن دیا۔ اس بات نے بھی انھیں پریشان کیا کہ ایک حادثے کی وجہ سے انھیں راشن لینا پڑ رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میاں بوٹا کے اہل خانہ عید کی وجہ سے انتہائی اداس اور پریشان ہیں۔ اکثر کہتے ہیں کہ بے شک غربت اور تنگ دستی تھی لیکن ہمارا بیٹا تو ہمارے ساتھ تھا۔ اب اس کے بغیر عید عید ہی نہیں لگتی۔ نہ ہی اس کے لیے کچھ خاص تیاری کی ہے۔‘
اس حادثے میں دو سگے بھائی عبدالجبار اور عبدالغفار ولد محمد اسماعیل بھی جان کی بازی ہار گئے تھے۔
ان کے دو بھائی اگرچہ پہلے سے یورپ میں موجود تھے اس لیے انھیں مالی مشکلات کا سامنا تو نہیں ہے لیکن والدین کو اپنے بچوں کی جدائی کے دکھ نے وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا ہے۔
ان کے چچا زاد بھائی عبدالماجد نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والدین نے ابھی تک ان کی موت کو تسلیم ہی نہیں کیا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی معجزہ ہو گا اور کہیں نہ کہیں سے کسی نہ کسی طریقے سے رابطہ کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ براہ راست کوئی تصدیق نہیں ہوئی لیکن بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس کشتی حادثے میں کافی لوگ بچ گئے تھے لیکن انھیں کسی محفوظ مقام پر رکھا ہوا ہے۔ اسی وجہ سے ہم بھی اللہ کے در سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ہمیں اچھی خبر سنائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’ہم نے کسی سرکاری ادارے، ایف آئی اے یا پولیس سے رابطہ کیا نہ ہی ہمیں کسی نے اپروچ کیا۔ ہمیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ ہمارا ایجنٹ پکڑا گیا ہے یا نہیں کیونکہ ہمارا اس سے بھی کوئی رابطہ نہیں ہے۔‘
دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے اپنی وزارت کا چارج سنبھالنے کے فوری بعد سب سے پہلے ایف آئی اے حکام کے ساتھ ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس کیا جس میں انھوں نے یونان کشتی حادثہ سے متعلق اب تک کی تفصیلات پر مبنی رپورٹ طلب کر لی ہے۔
ایف آئی اے حکام نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ اس سلسلے میں رپورٹ تیار کی جا رہی ہے جو جلد ہی وزیر داخلہ کو پیش کر دی جائے گی۔
حکام کے مطابق یونان کشتی حادثہ کے فوری بعد ملک تمام شہروں میں بڑے پیمانے پر انسانی سمگلروں کے خلاف کاررائیاں شروع کی گئیں اور پہلے مہینے میں ہی 50 سے زائد انسانی سمگلر گرفتار کیے گئے۔
حکام کا کہنا ہے کہ اب تک یہ گرفتاریاں 100 کے قریب پہنچ گئی ہیں تاہم 30 سے زائد سمگلر بیرون ملک مقیم ہونے کی وجہ سے گرفتار نہیں ہو سکے۔ انٹرپول کے ذریعے ان کی گرفتاری عمل میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
جن سمگلروں کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں 15 ایسے ہیں جو ایف آئی اے کی ریڈ بک میں شامل تھے۔ صرف اس حادثے سے متعلق 193 مقدمات درج کیے گئے ہیں جو اس وقت عدالتوں میں زیرسماعت ہیں۔
حکام کے مطابق لواحقین کی اکثریت ان ایجنٹوں کے بارے میں آگاہ نہیں ہے کیونکہ اکثر نوجوان اپنے کسی عزیز یا دوستوں کے ذریعے ان ایجنٹوں سے رابطہ کرتے تھے اور بعض بڑے ایجنٹوں نے آگے لوگوں کو صرف رابطہ کار کے طور پر رکھا ہوتا ہے جو متاثرین کے عزیز بھی ہوتے ہیں اس لیے وہ ان کا نام بھی نہیں لیتے اور ان ایجنٹوں کی گرفتاری میں مشکل پیش آتی ہے۔ اس کے باوجود بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئی ہیں تاکہ مزید نوجوانوں کو ان کے چنگل میں پھنسنے سے روکا جائے۔
حکام نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس حادثے میں بچ جانے والے 12 پاکستانی نوجوانوں میں سے صرف ایک وطن واپس آیا ہے جبکہ 11 نوجوانوں نے یونان میں سیاسی پناہ کی درخواست دی ہے۔