ضمنی انتخابات: کیا پنجاب میں مسلم لیگ ن کی پوزیشن مستحکم ہوئی؟
ضمنی انتخابات: کیا پنجاب میں مسلم لیگ ن کی پوزیشن مستحکم ہوئی؟
پیر 22 اپریل 2024 15:37
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
پنجاب کی وزیرِاطلاعات عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ ’پنجاب کل بھی مسلم لیگ ن کا گڑھ تھا اور آج بھی ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں رواں برس کے عام انتخابات کے بعد ہونے والے پہلے ضمنی الیکشنز میں غیرحتمی اور غیرسرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ ن کو برتری حاصل ہے۔
پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی کے مقابلے میں لیگی امیدواروں کی جیت پر مسلم لیگ ن نسبتاً زیادہ پرجوش دکھائی دے رہی ہے جبکہ اپوزیشن ایک مرتبہ پھر دھاندلی کے الزامات عائد کر رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی مسلم لیگ ن کی پوزیشن پنجاب میں بہتر ہوئی ہے؟ اس بارے میں سیاسی مبصرین کی آرا مختلف ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ ’سیاسی میدان میں پارٹیوں کو نشیب و فراز سے گزرنا ہی ہوتا ہے، مقبولیت میں کمی یا زیادتی اس کھیل کا مستقل حصہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ موجودہ ضمنی انتخابات سے مسلم لیگ ن کے ورکرز میں کچھ توانائی آئی ہے۔ تحریک انصاف کا ورکر کچھ رنجیدہ ہوا ہے اور وہ ووٹ دینے بھی نہیں نکلا۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن کو جو ریئلٹی چیک ملا تھا، اس سے انہوں نے بھرپور استفادہ کیا، اپنی طاقت کو مجتمع کیا اور الیکشن والے دن بھی اپنے ووٹر کو نکالا ہے۔‘
’ویسے تو ضمنی انتخابات کی اتنی زیادہ اہمیت نہیں ہوتی لیکن ان نتائج سے مسلم لیگ ن شاید اپنی کچھ سیاسی قوت واپس لے لے۔‘
ضمنی انتخابات میں ن لیگ نے نہ صرف اپنی جیتی ہوئی نشستوں پر دوبارہ کامیابی سمیٹی ہے بلکہ وزیرآباد سے صوبائی نشست جو تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار نے جیتی تھی، وہ بھی اب ن لیگ کے پاس آ گئی ہے۔
سینیئر صحافی حبیب اکرم کہتے ہیں کہ ’آٹھ فروری کے انتخابات کے غیرشفاف ہونے کے بعد ضمنی الیکشنز کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ کون جیتا کون ہارا، یہ اب اہم نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا ’اپوزیشن کو الیکشن کمیشن پر بھروسہ ہے اور نہ ہی الیکشن کے عمل پر اب کوئی اعتماد رہا ہے۔ اگر آپ اکیلے ہی دوڑ رہے ہوں اور پھر اعلان کر دیں کہ آپ فاتح ہیں تو اس بات کا کیا ہی کیا جا سکتا ہے۔‘
’ضمنی الیکشنز پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ ان عام انتخابات کے ضمنی الیکشن ہیں جن میں فارم 47 پر نتائج تبدیل کیے گئے۔‘
حبیب اکرم نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک بے سود ایکسرسائز ہوئی ہے۔ جس نے پہلے سے کمزور انتخابی ڈھانچے کو مزید کمزور کر دیا ہے۔‘
پیر کو پنجاب اسمبلی کے اجلاس سے پہلے صوبے کے اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچر نے حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ’گورنر ہاؤس میں تمام پریزائیڈنگ افسروں کو الیکشن سے ایک روز قبل اکھٹا کیا گیا اور ان سے فارم 45 پر دستخط کروائے گئے جبکہ ہزاروں کی تعد میں پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا، موبائل سروس معطل کی گئی۔‘
اپوزیشن لیڈر نے مزید کہا کہ ’اب ہمارے احتجاج کا دائرہ وسیع ہو گیا اور مطالبات میں ضمنی الیکشنز کی دھاندلی بھی شامل ہو گئی ہے۔ انہوں نے سنی اتحاد کونسل کو اسمبلی میں پہنچنے نہیں دیا کہ کہیں مخصوص نشستیں نہ لے لیں۔‘
ان ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار سنی اتحاد کونسل کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے تھے۔
پنجاب کی وزیرِ اطلاعات عظمیٰ بخاری نے اپوزیشن لیڈر کے الزمات کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’پنجاب مسلم لیگ ن کا کل بھی گڑھ تھا اور آج بھی ہے۔ یہ بات سنی اتحاد کونسل والوں کو ہضم نہیں ہو رہی، اس لیے دوبارہ الزامات لگا رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کسی نے کوئی ایک شکایت بھی الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کروائی۔ یہ اب فارم 45 کا شور ڈال رہے ہیں۔‘