Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ووٹنگ کی شرح میں کمی، انڈین انتخابات میں مودی کی ’لہر‘ نظر نہیں آرہی

انڈیا میں ہونے والے دنیا کے سب سے بڑے انتخابات میں 96 کروڑ 80 لاکھ سے زائد ووٹرز رجسٹرڈ ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا میں ہونے والے عام انتخابات کے پہلے اور دوسرے مرحلے میں ووٹنگ کی شرح میں کمی دیکھی گئی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق ماہرین کا خیال ہے کہ موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کو سنہ 2014 میں اقتدار میں لانے والی جوش و خروش کی ’لہر‘ ان انتخابات میں نظر نہیں آ رہی۔
انڈیا میں ہونے والے دنیا کے سب سے بڑے انتخابات میں 96 کروڑ 80 لاکھ سے زائد ووٹرز رجسٹرڈ ہیں، جبکہ نریندر مودی اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی نظریں مسلسل تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے پر ہیں۔
ووٹنگ کا پہلا مرحلہ 19 اپریل کو شروع ہوا تھا اور چھ سے زائد ہفتوں تک پولنگ جاری رہے گی۔ چار جون کو انتخابی نتائج کے اعلان کی توقع ہے۔
انڈیا میں مجموعی طور پر 28 ریاستیں اور آٹھ ایسے علاقے شامل ہیں جو براہ راست وفاق کے کنٹرول میں ہیں۔ بعض علاقوں میں پولنگ کا عمل ایک ہی دن میں مکمل ہو گیا جبکہ کئی جگہوں پر یہ مختلف مراحل پر مشتمل ہے۔
انتخابات کے دوسرے مرحلے کا آغاز 26 اپریل کو ہوا تھا اور ووٹنگ کی دوسری تاریخیں سات مئی، 13 مئی، 20 مئی، 25 مئی اور یکم جون ہیں۔
الیکشن کمیشن آف انڈیا کے مطابق جمعے کو ووٹنگ کی شرح 61 فیصد رہی، جو پانچ برس قبل کے انتخابات کے دوسرے مرحلے میں 68 فیصد تھی۔ حالیہ انتخابات کے پہلے مرحلے میں ووٹنگ کی شرح 65 فیصد رہی جو سنہ 2019 میں 70 فیصد تھی۔
کیرالہ میں موجود سینٹر فار پبلک پالیسی ریسرچ کے چیئرمین ڈاکٹر دھنوراج نے عرب نیوز کو بتایا کہ ووٹنگ کی شرح میں کمی ’سیاست میں عدم دلچسپی‘ کو ظاہر کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں یہ واضح ہے کہ کسی پارٹی کے حق میں کوئی لہر نہیں ہے۔ سنہ 2014 اور سنہ 2019 میں ایک لہر تھی۔‘
’سنہ 2024 میں یہ بات ہو رہی تھی کہ ایک لہر ہے، لیکن میرے خیال میں یہ واضح ہو گیا ہے کہ ایسی کوئی لہر موجود نہیں ہے، ایسی کوئی لہر نہیں جو کسی بھی پارٹی کو پارلیمنٹ میں واضح اکثریت دے۔‘

حالیہ انتخابات میں نریندر مودی نے اپنی جماعت بی جے پی کی قیادت میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کے لیے 400 نشستیں حاصل کرنے کا ہدف رکھا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

نریندر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی کی قیادت میں قائم نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کو 24 اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل انڈین نیشنل ڈویلپمنٹ انکلوزو الائنس نے چیلنج کیا۔ اس الائنس کی قیادت کانگریس کر رہی ہے۔
سنہ 2014 اور 2019 میں بی کے پی کے ہاتھوں شکست نے گانگریس کی سیاست کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ یہاں تک کہ سنہ 2019 میں وہ صرف 52 سیٹیں جیت سکی جبکہ بی جے پی نے شاندار کامیابی اپنے نام کرتے ہوئے 543 اراکین پر ایوان زِیریں میں 303 سیٹیں اپنے نام کیں۔
انڈیا میں کوئی بھی جماعت یا اتحاد جو 272 سیٹیں حاصل کرتا ہے، حکومت بنا سکتا ہے۔
سنہ 2024 میں مودی نے اپنی جماعت بی جے پی کی قیادت میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کے لیے 400 نشستیں حاصل کرنے کا ہدف رکھا ہے، لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
اگرچہ پری پول سرویز یہ ظاہر کر رہے تھے کہ مودی آسانی سے جیت جائیں گے، لیکن اب یہ نہیں کہا جا رہا کہ گذشتہ دو انتخابات کی طرح بھاری اکثریت حاصل ہو گی۔

سنہ 2014 اور 2019 میں بی کے پی کے ہاتھوں شکست نے گانگریس کی سیاست کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

نئی دہلی میں موجود سیاسی تجزیہ کار ستیش کمار کے مطابق ’400 سیٹوں کو عبور کرنا بی جے پی کی انتخابی بیان بازی تھی، لیکن اب لگتا ہے یہ حقیقت نہیں بن رہی۔‘
’بی جے پی نے یہ نعرہ صرف ووٹرز کو جوش دلانے کے لیے لگایا۔ جب ووٹنگ کم ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ بی جے پی کو بھاری اکثریت حاصل نہیں ہو سکتی، وہ سادہ اکثریت کے قریب ہو سکتی ہے۔‘

شیئر: