پاکستان کے پہلے خلائی مشن ’آئی کیوب قمر‘ نے چاند کے مدار میں داخل ہونے کے بعد پہلی تصویر لی ہے جو چینی حکام نے پاکستان کے سفیر کے حوالے کی۔
سیٹلائٹ مشن آئی کیوب قمر (آئی کیوب کیو) کی کامیابی کی تقریب جمعے کو چینی ادارے چائنہ نیشنل سپیس ایڈمینسٹریشن (سی این ایس اے) میں منعقد ہوئی۔
آئی کیوب کیو نے سورج کی تیز روشنی کے ساتھ پہلی تصویر لی ہے۔
مزید پڑھیں
-
’تاریخی لمحہ‘، پاکستان کا چاند کے لیے پہلا سیٹلائٹ مشن روانہNode ID: 855641
-
آئی کیوب کیو، پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ چاند کے مدار میں داخلNode ID: 856921
سی این ایس اے نے اپنی ویب سائٹ پر کہا ہے کہ تقریب میں آئی کیوب کیو سیٹلائٹ مشن سے موصول ہونے والا ڈیٹا باضابطہ طور پر پاکستان کے سفیر خلیل ہاشمی کے حوالے کیا گیا۔
ویب سائٹ پر کہا گیا ہے کہ 8 مئی کو چین کے مقامی وقت شام 4 بج کر 14 منٹ پر پاکستانی آئی کیوب کیو چانگ ای 6 مشن سے علیحدہ ہوا اور کامیابی سے پہلی تصویر کھینچی۔
’پاکستان کے کیوب سیٹلائیٹ منصوبے نے اپنا ہدف مکمل کیا اور کامیابی سے علیحدہ ہوا اور ڈیٹا حاصل اور ٹرانسمٹ کیا۔‘
سی این ایس اے کے مطابق 8 مئی کو مقامی وقت شام 4 بج کر 27 منٹ پر پاکستان کے سیٹلائٹ نے پہلی تصویر کھینچی جس میں سورج تیز روشنی کے ساتھ دکھائی دے رہا ہے۔
8 مئی کو مقامی وقت شام 7 بج کر 56 منٹ پر پاکستان کے سیٹلائٹ مشن نے چاند کی پہلی تصویر کھینچی۔
چینی ادارے کے مطابق 9 مئی کو مقامی وقت دوپہر 2 بج کر 38 منٹ پر پاکستان کے مشن سے ایک اور تصویر موصول ہوئی جس میں دائیں طرف سورج دکھائی دے رہا ہے اور بائیں جانب چاند ہے۔
پاکستان کا سیٹلائٹ مشن بدھ کو چاند کے مدار میں داخل ہوا تھا۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی سے وابستہ ’آئی کیوب کیو‘ مشن کی ٹیم کے کور ممبر ڈاکٹر خرم خورشید نے اردو نیوز کو تصدیق کی تھی کہ چین کے راکٹ کے ذریعے بھیجے گئی پاکستان کی سیٹلائٹ چاند کے مدار میں کامیابی سے داخل ہوئی ہے۔
آئی کیوب کیو چانگ ای 6 کے ذریعے چاند کے مدار میں داخل ہوا تھا۔
پاکستان کے چاند کے لیے پہلے سیٹلائٹ مشن ’آئی کیوب قمر‘ کو 3 مئی کو چین کے ہینان سپیس لانچ سائٹ سے روانہ کیا گیا تھا جو انسٹی ٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی کی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر براہ راست نشر کیا گیا۔
پاکستان کا سیٹلائٹ مشن تین سے چھ ماہ تک چاند کے اطراف چکر لگائے گا۔
اس دوران سیٹلائٹ کی مدد سے چاند کی سطح کی مختلف تصاویر لی جائیں گی جو چین کے ڈیپ سپیس نیٹ ورک کے ذریعے ہی حاصل کی جائیں گی۔