Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’چار دن سے ہاسٹل میں بند، ذہنی صحت متاثر‘، بشکیک میں پھنسے پاکستانی طلبہ

کرغزستان کے درالحکومت بشکیک میں بین الاقوامی طلبہ کے خلاف ہونے والے حالیہ پرتشدد واقعات کے بعد طلبہ کا بشکیک اور اُس کے نواحی علاقوں سے انخلا کا عمل جاری ہے۔
اس وقت بشیک سے 30 کلو میٹر کے فاصلے پر موجود کانت کے علاقے میں بھی درجنوں پاکستانی طلبہ ہاسٹلز اور فلیٹس میں محصور ہیں جو بشکیک میں پاکستانی ایمبیسی اور حکومت پاکستان کی امداد کے منتظر ہیں۔
ایشین میڈیکل انسٹیٹیوٹ میں ایم بی بی ایس کے پانچ سالہ پروگرام میں داخلہ لینے والی پاکستانی طالبہ ایمان عباسی نے رابطہ کرنے پر اُردو نیوز کو بتایا ہے کہ غیرملکی طلبہ کے پرتشدد واقعات کا آغاز بشکیک سے ہوا تھا جو اب نواحی علاقوں تک پھیل رہا ہے۔

'پاکستانی ایمبیسی سے کوئی پیغام نہیں مل رہا '

ایمان عباسی کے مطابق کہ اُنکی یونیورسٹی غیر ملکی طلبہ کی حفاظت کے لیے اقدامات اُٹھا رہی ہے۔ ہمارے ہاسٹلز کو محفوظ بنا دیا گیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ایشین میڈیکل انسٹیٹیوٹ نے پاکستانی طلبہ کو وطن واپس جانے کی اجازت دے دی گئی۔ تاہم پاکستانی ایمبیسی ہماری کال کا جواب نہیں دے رہے۔ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کب وطن واپس روانہ ہونگے۔

ہاسٹل کی انتظامیہ خوراک مہیا کر رہی ہے: پاکستانی طالبہ

اُن کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی ہاسٹل کی انتظامیہ ہمیں خوراک مہیا کر رہی ہے۔ لیکن اردگرد کے علاقوں میں رہنے والے طلباء کو خوراک کے مسائل کا سامنا ہے۔وہ باہر جا کر خود کھانے پینے کا سامان خرید نہیں سکتے اور اُن کے پاس موجود سٹاک ختم ہو رہا ہے۔

' چار دنوں سے ہاسٹل کے کمرے میں بند ہیں '

اُن کا کہنا تھا کہ پرتشدد واقعات کے شروع ہونے سے اب تک وہ مسلسل ہاسٹل میں ہیں۔ ہاسٹل میں محصور طلبہ کی ذہنی صحت متاثر ہو رہی ہے۔انہوں نے پاکستانی طلبہ کے جلد از جلد وطن واپسی کے لیے حکومت سے تعاون درخواست کی ہے۔
ایمان عباسی اور دیگر طلبہ کو کہ تشویش بھی ہے کہ کیا ہماری وطن واپسی کے اخراجات حکومت اٹھائے گی یا ہمیں ہی بندوبست کرنا پڑے گا۔
اُن کا کہنا تھا اس مسئلے سمیت دیگر معلومات کے لیے بھی پاکستانی ایمبیسی سے کوئی جواب نہیں مل رہا۔
یاد رہے کہ کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں 13 مئی کو حالات اُس وقت خراب ہوئے جب بودیونی کے ہاسٹل میں مقامی اور غیرملکی طلبہ کے درمیان جھگڑا ہوا۔ بعد ازان جھگڑے میں ملوث 3 غیرملکیوں کو حراست میں بھی لے لیا گیا تھا۔
کرغزستان کے مقامی میڈیا کے مطابق 17 مئی کی شام چوئی کرمنجان دتکا کے علاقے میں مقامیوں نے احتجاج کیا اور مقامی افراد نے جھگڑے میں ملوث غیرملکیوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ بشکیک سٹی داخلی امور ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ نے مظاہرہ ختم کرنے کی درخواست کی۔
مقامی میڈیا کے مطابق حراست میں لیے گئے غیرملکیوں نے بعد میں معافی بھی مانگی لیکن مظاہرین نے منتشر ہونے سے انکار کیا اور وہ مزید تعداد میں جمع ہوگئے۔ پبلک آرڈر کی خلاف ورزی پر متعدد افراد کو حراست میں بھی لیا گیا۔ کرغز میڈیا کے مطابق وفاقی پولیس کے سربراہ سے مذاکرات کے بعد مظاہرین منتشر ہوگئے تھے۔
بشکیک کے پرتشدد واقعات کے دوران بیمار پڑ جانے والے پاکستانی طالب علم مدثر اقبال 4 روز سے ہسپتال میں زیرِعلاج اور وطن واپسی کے منتظر ہیں۔
ایشین میڈیکل انسٹیٹیوٹ میں میڈیکل پروگرام کے چوتھے سمسٹر میں زیرِتعلیم پاکستانی طالب علم مدثر اقبال نے اُردو نیوز کو بتایا کہ بشکیک میں غیرملکی طلبہ کے خلاف پُرتشدد واقعات کے دوران ہی اُنہیں اپنڈکس کی تکلیف ہوئی اور وہ گزشتہ چار دنوں سے ہسپتال میں زیرِعلاج ہیں مگر یونیورسٹی انتظامیہ میں سے کوئی بھی اُن کی خیریت دریافت کرنے نہیں آیا۔
انہوں نے بتایا کہ وہ یونیورسٹی کے بالمقابل ہی ایک ہسپتال میں ہی زیرعلاج ہیں تاہم ہیلتھ انشورنس ہونے کے باوجود یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے کسی قسم کا مالی تعاون نہیں کیا گیا۔
مدثر اقبال کے مطابق طلبہ سے یونیورسٹی انتظامیہ علاج معالجے کی سہولیات کے لیے فیس وصول کرتی رہی ہے۔ وہ خود بھی مطلوبہ فیس ادا کر چکے ہیں۔’ہیلتھ انشورنس فیس لینے کے باجود طلبہ کا ہسپتالوں میں خیال نہیں رکھا جا رہا اور نہ ہی علاج معالجے میں کوئی رعایت دی جا رہی ہے۔ جس کے بعد طلبہ مہنگا علاج کروانے پر مجبور ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ جب اس معاملے پر اُن کی یونیورسٹی کے ڈین سے ہوئی تو جواب ملا کہ 'اب یونیورسٹی یہ اخراجات برداشت نہیں کر سکتی۔ ہسپتال میں داخل ہونے سے کر اب تک کسی نے میری صحت کے بارے میں دریافت نہیں کیا۔‘

شیئر: