پاکستان کی حکومت نے حال ہی میں جنگلوں میں لگنے کے والی آگ کے پیش نظر فضا سے پانی پھینک کر آگے بجھانے والے پروفیشنل واٹر بمبار طیارے خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے (نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی) نے جہاز کی خریداری کے لیے جو ٹینڈر جاری کیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ کم از کم 10ہزار لیٹر پانی لے جانے کی استعطاعت رکھنے والا جہاز درکار ہے جس میں ملکی اور غیر ملکی دونوں کمپنیاں حصہ لے سکتی ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان میں ملٹری ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹر اس سے پہلے پانی بجھانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں تاہم بڑے پیمانے پر آگ بجھانے کے عمل میں وہ زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوتے۔ حال ہی میں اسلام آباد کی مارگلہ کی پہاڑیوں میں لگنے والی آگ پر کئی روز تک قابو نہیں پایا جا سکا۔
مزید پڑھیں
این ڈی ایم اے کے ٹینڈر میں کہا گیا ہے کہ انڈیا اور اسرائیل کے سوا دنیا بھر کی کمپنیاں یا افراد واٹر بمبار طیارے کی بولی میں حصہ لے سکتی ہیں۔
خیال رہے کہ سال 2022 میں بلوچستان کے جنگلوں میں لگنے والی آگ پر قابو پانے کے لیے ایرانی حکومت نے مدد کی تھی اور اپنا واٹر بمبار طیارہ پاکستان میں بھیجا تھا۔
واٹر بمبار طیارہ ہوتا کیا ہے؟
دنیا بھر میں جنگلوں میں آگ لگنے کے واقعات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آگ بجھانے کے لیے طیاروں کے استعمال کا نظریہ 1929 میں تقریباً ایک صدی قبل امریکی ہوا باز فریڈرک کارل نے دیا تھا۔ جب انہوں نے کیلی فورنیا کے جنگلوں میں لگنے والی آگ کو دوران ہوا بازی دیکھا تھا۔ اس کے بعد اس بات پر سنجیدگی سے عمل شروع ہوا۔ اور پھر ایئریل فائر فائٹنگ، یا بامبر واٹر جیسی اصطلاحات وجود میں آئیں۔
پاکستان کے سابق ائیروائس مارشل اور ائیر ایگل اکیڈمی کے سی ای او ساجد حبیب نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’واٹر بمبار بنیادی طور پر فکسڈ ونگ طیارے یا ہیلی کاپٹر ہوتے ہیں اور ان کے اندر یا نیچے بھاری مقدار میں پانی لے جانے کے لیے ٹینک بنائے گئے ہوتے ہیں۔ اور ان کے اندر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ کسی بڑے ڈٰیم یا پانی کے دیگر ذخیروں سے یہ ہوا میں معلق ہی پانی بھرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘
