Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مسٹری سپنر اور گوگلی‘، کرکٹ کی اصطلاحات سے منسوب کہانیاں، عامر خاکوانی کا کالم

عبدالقادر غیر معمولی گگلی کراتے تھے۔ ان کی بعض گگلی گیندیں ایک ایک گز جتنی بریک ہوتی تھیں (فوٹو: کرک انفو)
 کرکٹ ورلڈ کپ شروع ہوچکا ہے۔ پاکستان کا آج پہلا میچ بھی ہے۔ میں نے سوچا کہ کرکٹ کی چند دلچسپ اصطلاحات سے منسوب کہانیوں پر بات کی جائے۔ آج کل کرکٹ پر کتب پڑھ رہا ہوں توایک دلچسپ انگریزی کتاب سے یہ معلومات ہاتھ آئیں، سوچا قارئین سے شیئر کی جائیں۔ 
گوگلی یا گگلی 
 کرکٹ سے گہری دلچسپی نہ رکھنے والوں کے لیے اس گیند کو سمجھنا قدرے مشکل ہے۔ جنرل ضیا الحق کے زمانے میں واپڈا کے ایک جرنیل چیئرمین غلام صفدر بٹ کرکٹ بورڈ کے بھی سربراہ تھے۔ تب یہ رواج تھا کہ ہر چیئرمین واپڈا کرکٹ بورڈ کا سربراہ ہوتا۔
عمران خان نے اپنی کتاب میں لکھا کہ غلام صفدر بٹ کو یہ تک نہیں پتہ تھا کہ گگلی گیند کیا ہوتی ہے؟ ویسے آج کل بھی یہی حال ہے، چند سال پہلے انڈین پریمیر لیگ (آئی پی ایل) میں راجھستان رائلز کے مالکان میں سے ایک انڈین اداکارہ شلپا شیٹھی کے بارے میں خبر آئی کہ وہ گراﺅنڈ میں اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنے گئیں اور ایک فاسٹ باﺅلر کو تھپکی دے کر کہا کہ ’شاباش اچھی گگلی کرانا۔‘ وہ بے چارہ مسکرا کر چل پڑا۔ بعد میں شلپا شیٹھی کو بتایا گیا کہ گگلی سپنر کراتے ہیں، فاسٹ بولر نہیں۔ 
 گگلی گیند دراصل رِسٹ سپنرز یعنی رائیٹ آرم لیگ سپنرز کی وہ ورائٹی ہے جس میں وہ لیگ بریک کے انداز میں آف بریک کرا دیتے ہیں یعنی وہ گیند جو لیگ سٹمپ پر پڑ کر آف سٹمپ کی طرف جانے کے بجائے آف سٹمپ پر پڑ کر اندر لیگ سٹمپ کی طرف آئے۔
یہ ایسی گیند جو اچھے بھلے بلے باز کو چکرا دیتی ہے۔ وہ گیند کو لیگ بریک سمجھ کر کھیلنے جائے اور گیند گھوم کر اندر کی طرف آ جائے۔ ویوین رچرڈ جیسا عظیم بلے باز بھی عبدالقادر کی لیگ بریک اور گگلی گیندوں سے پریشان ہوگیا تھا۔ 
پاکستانیوں کے لیے گگلی گیند نئی نہیں۔ کئی پاکستانی لیگ سپنر اس ورائٹی میں مہارت رکھتے رہے ہیں۔ عبدالقادر غیر معمولی گگلی کراتے تھے۔ ان کی بعض گگلی گیندیں ایک ایک گز جتنی بریک ہوتی تھیں۔
مشتاق احمد بھی بہت عمدہ گگلی گیند کرایا کرتے، 92 کے ورلڈ کپ فائنل میں مشتاق نے اپنی خوبصورت گگلی پر انگلش بلے باز گریم ہک کو ایل بی ڈبلیو کیا تھا۔ دانش کینیریا بھی اچھی گگلی کرا لیتے تھے۔ یاسر شاہ البتہ اچھی گگلی نہیں کرا سکتے تھے۔ آج کل عبدالقادر کے بیٹے عثمان قادر کی بھی گگلی اچھی ہے، البتہ ان کی مجموعی بولنگ زیادہ نپی تلی نہیں۔ شاداب خان گگلی کراتا ہے مگر سپیڈ اتنی کم ہوتی ہے کہ بلے باز سمجھ جاتا ہے۔
 گوگلی یا گگلی گیند کا پس منظر دلچسپ ہے۔ کہتے ہیں کہ انگلینڈ کے ایک سپنر برنارڈ بوسانیٹ نے آج سے کوئی سوا سو سال پہلے ایک انڈور گیم کھیلتے ہوئے یہ گیند ایجاد کی، وہ اپنے دوست کے ساتھ کھیل رہے تھے جس میں طویل میز کی ایک طرف بیٹھ کر دوسری طرف ٹینس بال یوں پھینکنی تھی کہ دوسرا اسے پکڑ نہ سکے۔
برنارڈ نے لیگ بریک کے انداز میں گیندیں پھینکیں اور پھر کلائی کو گھما کر اسی انداز میں آف بریک پھینکی کہ سامنے بیٹھا دوست دھوکا کھا گیا۔ اس ورائٹی کو اس نے بعد میں ڈویلپ کیا اور آسٹریلیا کے خلاف 1903-4 کی ایشز سیریز جیت لی۔ جب سڈنی ٹیسٹ کی چوتھی اننگ میں انہوں نے اپنی پراسرار گگلی گیند کے سہارے پانچ وکٹیں لیں۔ اگلے سال انہوں نے ایک میچ میں آٹھ وکٹیں بھی لیں۔ بدقسمتی سے وہ چند ایک ٹیسٹ میچ ہی کھیل سکے اور پھر ریٹائر ہوگئے۔

گوگلی گیند سے بیٹرز کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں (فوٹو: وکی میڈیا)

 اس گیند کو گوگلی یا گگلی کہنے کی دو وجوہات بتائی جاتی ہیں، ایک تو اس لیے کہ اس گیند سے بیٹرز کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ دوسری وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس زمانے میں گوگلی نام سے بچوں کی ایک کھلونا گیند جو رگبی گیند سے مشابہہ تھی، مشہور ہوئی۔ وہ گیند کسی بھی زاویے پر لڑھک جاتی تھی۔ اس سے گوگلی یا گگلی گیند مشہور ہوئی۔
 گگلی گیند کے حوالے سے آخری دلچسپ بات یہ کہ لیجنڈری آسٹریلوی بلے باز ڈان بریڈ مین اپنی آخری ٹیسٹ اننگز میں صفر پر آﺅٹ ہوئے تھے۔ بریڈمین کی ٹیسٹ ایوریج 99 ہے۔ اگر وہ چند رنز بنا لیتے تو ان کی ٹیسٹ ایوریج سو ہوتی۔ انہیں انگلش سپنر ایرک ہولیز نے آﺅٹ کیا تھا اور وہ گیند گگلی ہی تھی۔ شہرہ آفاق آسٹریلوی بلے باز اس گیند کو سمجھ نہیں سکا اوربولڈ ہوگیا۔ 
 ’چائنا مین‘
 یہ بھی ایسی ہی ایک دلچسپ ورائٹی ہے مگر اس کا تعلق لیفٹ آرم سپنرز سے ہے۔ گوگلی کی طرح لیفٹ آرم سپنر اگر گیند کو لیگ بریک کرانے کے بجائے اندر لے آئے یعنی آف بریک کرا دے تو یہ ایک انہونی گیند بن جاتی۔ اس گیند کو ’چائنا مین‘ کہنے کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ایک ویسٹ انڈین سپنر’ایلس اچونگ‘ جن کے والد چینی نژاد اور والدہ کیریبین افریقی تھیں، انھوں نے 1933میں انگلینڈ کے مشہور اولڈ ٹریفورڈ گراﺅنڈ میں بولنگ کے دوران ایک ایسی گیند کرائی جس پر انگلش بلے باز والٹر رانبز دھوکا کھا کر سٹمپ آوٹ ہوگئے۔ واپس جاتے ہوئے وہ جھنجھلا کر بڑبڑاتے جا رہے تھے کہ ’اس ’چائنا مین‘ نے مجھے آوٹ کرا دیا۔‘ ایک ویسٹ انڈین فیلڈر نے یہ بات سنی تو اونچی آواز میں پکارے، ’تم گیند کو کہہ رہے ہو یا باﺅلر کو؟‘ اس نے فوری طور پر گیند کا نام لے دیا اور یوں یہ سپن ورائٹی چائنامین کے نام سے مشہور ہوگئی۔
بعد میں انگلینڈ کی مشہور کاﺅنٹی یارک شائر کے ایک بولر نے دعویٰ کیا کہ وہ چائنا مین کا بانی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس زمانے میں آرتھو ڈاکس (روایتی) لیفٹ آرم سپنر یعنی انگلیوں سے سپن کرانے والے بولر اس ورائٹی کو استعمال کرتے تھے جو کہ بڑا مشکل ہنر تھا۔ کہا جاتا ہے کہ شہرہ آفاق ویسٹ انڈین آل راﺅنڈر گیری سوبرز بھی روایتی لیفٹ آرم سپن باﺅلنگ کے ساتھ چائنا مین بھی کرا لیتے تھے۔ ویسے سوبرز کا عجیب وغریب معاملہ تھا کہ وہ پرانی گیند سے سپن اور بہت بار نئی گیند سے میڈیم فاسٹ باﺅلنگ بھی کرا لیتے، ان کی کچھ ٹیسٹ وکٹیں بطور فاسٹ بولر ہیں۔ 
جدید زمانے میں ایک جنوبی افریقی سپنر پال ایڈمز اپنے عجیب وغریب بولنگ ایکشن کی وجہ سے مشہور ہوئے تھے۔ وہ بھی بڑی عمدہ چائنا مین کرا لیتے تھے مگر شاید اپنے ایکشن کی وجہ سے جس میں گیند پھینکتے وقت ان کا سر سیدھا نہیں ہوتا تھا۔ ان کی لینتھ اچھی نہیں رہتی تھی۔ اسی وجہ سے وہ لمبی کرکٹ نہ کھیل پایا۔ 

پاکستان کے ایک مسٹری سپنر ابرار احمد بھی ہیں (فوٹو اے پی)

 مسٹری سپنر
 مسٹری سپنر بنیادی طور پر وہ سپنر ہے جو اپنی روٹین کے بولنگ ایکشن میں حیران کن طور پر دو مختلف گیندیں کرا دے۔ آج کل کئی ’کھبے رِسٹ سپنرز‘ مشہور ہو گئے ہیں جو کلائی سے لیگ بریک کرانے کے ساتھ اندر بھی گیند لاتے ہیں۔ انہیں اب مسٹری سپنر کہا جاتا ہے اور چائنامین ورائٹی کی جگہ اسے ’رانگ آن‘ کہا جاتا ہے۔
چائنامین شاید نسل پرستانہ اصطلاح سمجھ کر رد کر دی گئی۔ انڈیا کے کلدیپ یادیو بڑے اچھے مسٹری سپنر ہیں۔ پچھلے سال ون ڈے ورلڈ کپ میں کلدیپ نے اچھی بولنگ کرائی۔ جنوبی افریقہ کے تبریز شمسی بھی مسٹری سپنر ہیں۔ ان کی گیندیں اندر کی طرف خاصا ٹرن لیتی ہیں۔
 پاکستان کے اکثر لیفٹ آرم سپنر روایتی لیفٹ آرم سپنر تھے۔ آج کل البتہ ایک نوجوان لیفٹ آرم سپنر فیصل اکرم مسٹری سپن بولنگ کرا رہے ہیں۔ اس سال وہ ملتان سلطان کی جانب سے پی ایس ایل کھیلے تھے۔ پاکستان کے ایک مسٹری سپنر ابرار احمد بھی ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ وہ فنگرز یعنی اپنی انگلیوں سے لیگ بریک اور گگلی کرا لیتے ہیں۔ عام طور سے صرف رِسٹ یعنی کلائی کے ساتھ ہی لیگ بریک کرائی جا سکتی ہے۔ انگلیوں کے ساتھ روایتی آف سپن بولنگ ہی ہوسکتی تھی۔ ابرار احمد نے البتہ نیا ہنر سیکھ کر اپنی جگہ بنا لی ہے۔ 
’ڈک‘
 کرکٹ میں صفر پر آﺅٹ ہونا ڈک کہلاتا ہے۔ ڈک سے مراد دراصل ڈک ایگ یعنی بطخ کا انڈہ ہے جو زیرو سے مشابہہ ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ کرکٹ کی طرح ٹینس میں بھی زیرو یعنی صفر کے لیے ایک عجیب اصطلاح ’لوؤ‘ استعمال کی جاتی ہے۔ اگر کوئی کھلاڑی چھ صفر سے دوسرے کو سیٹ ہرائے تو اسے سکس لوؤ سے جیتنا کہتے ہیں۔ دو صدیوں سے یہ اصطلاح استعمال کی جاتی ہے مگر ٹینس کے ماہرین نہیں جانتے کہ اس کی ابتدا کیسے ہوئی۔ ایک توجیہہ یہ دی جاتی ہے کہ اس سے مراد اس کھلاڑی کی کھیل کے لیے محبت ہے کہ صفر سکور کے باوجود وہ کھیل رہا ہے۔ 
خیر کرکٹ میں ڈک سے مراد انڈہ ہے۔ ایک زمانے میں آسٹریلیا کے چینل نائن پر جیسے ہی کوئی کھلاڑی صفر پر آﺅٹ ہوتا تو بطخ کی شکل کا کارٹون آنسو بہاتا پویلین کی طرف چل پڑتا اور جانے سے پہلے ایک انڈا دے جاتا۔ 92 کے ورلڈ کپ میچز دیکھنے والوں نے یہ نظارہ بہت بار دیکھا ہوگا۔ 

شعیب اختر نے انڈیا میں پہلی گیند پر ٹنڈولکر کو کلین بولڈ کر دیا تھا (فوٹو این ڈی ٹی وی)

اگر کوئی بلے باز اپنی پہلی گیند پر آﺅٹ ہوجائے تو اسے گولڈن ڈک کہتے ہیں۔ آپ لوگوں کو شاید شعیب اختر کا وہ مشہور گیند یاد ہو جب انہوں نے انڈیا میں پہلی گیند پر ٹنڈولکر کو کلین بولڈ کر دیا تھا۔ مڈل سٹمپ اڑ گئی تھی۔ ٹنڈولکر اپنی پہلی گیند پر ایسا بری طرح بولڈ بہت کم ہوئے۔ اگر کوئی کھلاڑی ٹیسٹ میچ کی دونوں اننگز میں صفر پر آﺅٹ ہوجائے تو اسے ’پیئر‘ پر آﺅٹ ہونا کہتے ہیں۔
سعید انور نے اپنے پہلے ٹیسٹ میچ میں پیئر حاصل کیا تھا۔ وہ تو سعید انور کی خوش نصیبی کہ مزید مواقع ملے اور انہوں نے اپنا سکہ منوا لیا۔ مشہور انگلش بلے باز گراہم گوچ نے بھی اپنے پہلے میچ میں پیئر کیا تھا۔ ڈان بریڈمین کی آخری اننگز کا اوپر ذکر ہوا، یہ سکینڈ بال ڈک تھی، یعنی دوسری گیند پر وہ صفر سکور پر آﺅٹ ہوئے۔
 اگر کوئی کھلاڑی دونوں اننگز میں پہلی گیند پر ہی آوٹ ہوا ہوتب یہ ’کنگ پئیر‘ کہلائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر میچ کی پہلی گیند پر کوئی بلے باز آﺅٹ ہوجائے تو وہ ڈک ڈائمنڈ ڈک کہلائے گی۔
ڈک کے حوالے سے بعض اتفاقات دلچسپ ہیں۔ انڈین کھلاڑی اجیت اگرکر دورۂ آسٹریلیا میں پانچ مسلسل اننگز میں صفر پر آوٹ ہوا۔ اسے پریس نے اس کے شہر کی مناسبت سے بمبئی ڈک کانام دیا۔ سابق آسٹریلوی کپتان کم ہیوز نے جب باغی آسٹریلوی ٹیم کے ساتھ جب جنوبی افریقہ کا دورہ کیا تو تیسرے ان آفیشل ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں وہ پہلی گیند پر آﺅٹ ہوا، مگر دلچسپ اتفاق یہ ہوا کہ وہ زخمی روڈنی ہاگ کے رنر کی حیثیت میں ایک بار پھر میدان میں آیا اور آتے ہی پہلی گیند پر اپنے کھلاڑی کو صفر پر رن آوٹ کرا دیا، یعنی تکنیکی طور پر ایک میچ میں تین صفر۔
1946 میں انڈیا کی ٹیم نے گلیمورگن کا دورہ کیا، ایک میچ میں کاﺅنٹی کا کھلاڑی پیٹر جج اپنی پہلی گیند پر انڈین لیگ سپنر چندراسروتی کے ہاتھوں آﺅٹ ہوگیا۔ یہ آخری کھلاڑی تھا۔ انڈیا نے گلیمورگن کو فالو آن کرایا۔ انہوں نے وکٹ بچانے کے لیے پیٹر جج ہی کو بطور اوپنر بھیج دیا۔ ادھر سے چندرا سروتی ہی نے نئی گیند سے بولنگ شروع کی۔ پیٹر جج اپنی پہلی گیند پرآوٹ ہوگیا۔ ماہرین کے مطابق تکنیکی طور پر اس سے تیز رفتار پیئر حاصل کرنا کرکٹ میں ممکن ہی نہیں۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کا جو بھی کھلاڑی کسی بھی قسم کی کرکٹ میں ڈک حاصل کرتا ہے وہ ایسسکس انگلینڈ کے ایک پرائمری کلب کی رکنیت کا حقدار ہوجاتا ہے۔ یہ کلب بینائی سے معذور لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے عطیات جمع کرتا ہے۔ اس کلب کا سربراہ انگلش سپنر ڈیرک انڈروڈ تھا جو ابھی چند ہفتے قبل دنیا سے رخصت ہوا۔ انڈروڈ کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ کینٹ کاﺅنٹی کی جانب سے جنوبی افریقہ کے خلاف میچ میں ایک دن میں دو بار ڈک یعنی صفر پر آﺅٹ ہوا تھا۔ اس لیے اسے کلب کی قیادت کا حقدار سمجھا گیا تھا۔

شیئر: