Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب میں ہتک عزت کا قانون نافذ، لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر

پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر قابل اعتراض مواد نشر یا شائع کرنے پر مقدمہ دائر کیا جا سکتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ہتک عزت کا نیا قانون لاگو ہو چکا ہے جس کا گزٹ نوٹیفکیشن پیر کی صبح جاری کیا گیا۔ دوسری طرف اس قانون کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی۔
درخواست پر ابتدائی طور پر رجسٹرار آفس کی طرف سے اعتراض عائد کیا گیا جسے دور کرنے کے بعد درخواست گزار نے پیٹیشن دوبارہ دائر کر دی ہے۔
اس نئے قانون کے نافذ ہوتے ہی اس سے پہلے ہتک عزت آرڈیننس 2002 جو پرویز مشرف کے دور میں جاری کیا گیا تھا وہ ختم ہو گیا ہے۔
مبصرین اس قانون کو سخت ترین قانون قرار دے رہے ہیں جس میں صحافتی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ صحافتی تنظیمیں اس قانون کو آزادی اظہار رائے پر قدغن بتا رہی ہیں۔
تاہم اس نئے قانون کے مطابق اب کوئی شخص کسی دوسرے کے خلاف پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر کوئی ایسا مواد نشر یا شائع کرتا ہے تو اس کے خلاف مقدمہ دائر کیا جا سکتا ہے۔ جس کو ایک ٹریبیونل سنے گا۔ یہ ٹریبیونل ہتک کرنے والے کو ابتدائی سماعت کا نوٹس بھیجے گا اور کیس کے قابل سماعت ہونے سے متعلق ابتدائی فیصلہ بھی یہی ٹریبیونل کرے گا۔
اگر مدعا ٹریبیونل کے نوٹس کے باوجود پیش نہیں ہوتا تو بھی ٹریبیونل کے پاس مقدمہ چلانے اور سزا کے طور پر جرمانہ کرنے کا اختیار ہو گا۔ اس قانون کے مطابق ہتک عزت کا الزام ثابت ہونے پر 30 لاکھ روپے تک کا جرمانہ عائد کیا جا سکے گا۔
پنجاب میں یہ پہلا سول قانون ہے جس کا ٹرائل تیز ترین بنیادوں پر چھ مہینے کے اندر اس ٹریبیونل کو کرنا ہو گا۔
لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے والے ایڈوکیٹ ندیم سرور نے اس درخواست میں وزیراعلٰی اور گورنر پنجاب کو بذریعہ پرنسپل سیکریٹری فریق بنایا ہے۔
ان کا موقف ہے کہ ہتک عزت قانون آئین اور قانون کے منافی ہے۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہتک عزت آرڈینیس اور ہتک عزت ایکٹ کی موجودگی میں نیا قانون نہیں بن سکتا۔‘
درخواست کے مطابق ’جبکہ ہتک عزت قانون میں صحافیوں سے مشاورت نہیں کی گئی۔ وہ اس سے براہ راست متاثر ہوں گے۔ ہتک عزت کا قانون جلد بازی میں صحافیوں اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔ لہذا عدالت ہتک عزت کے قانون کو کالعدم قرار دے۔‘
خیال رہے کہ ہتک عزت کا یہ قانون پنجاب اسمبلی نے دو ہفتے قبل پاس کیا جس کے بعد حتمی منظوری کے لیے اسے گورنر کو بھیجا گیا۔
پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے اس بل کی مخالفت کی، تاہم وہ ملک سے باہر چلے گئے اور ان کی جگہ پر قائم مقام گورنر اور سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان جن کا تعلق ن لیگ سے ہے، نے اس کی منظوری دے دی۔

شیئر: