Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹیم کی ناقص کارکردگی، کیا پاکستان کرکٹ بورڈ قومی خزانے پر بوجھ ہے؟

امریکہ اور انڈیا کے خلاف میچز میں پاکستان کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا. فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کرکٹ ٹیم اپنی ناقص کارکردگی کے نتیجے میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 کے پہلے مرحلےسے ہی باہر ہو گئی جس کے بعد سوشل میڈیا پر نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ کرکٹ بورڈ کو ہی ختم کر دیا جائے تاکہ قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کی بچت ہو سکے۔
اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) واقعی قومی خزانے پو بوجھ ہے؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے جب سابق چیئرمین پی سی بی اور کرکٹ ماہرین سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ بورڈ وفاقی یا صوبائی حکومتوں سے کسی قسم کا مالی تعاون حاصل نہیں کرتا اور اپنے تمام اخراجات خود اٹھاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پی سی بی انٹرنیشنل کرکٹ کونسل، اپنے سپانسرز اور مارکیٹنگ کے دیگر ذریعوں سے مالی اخرجات برداشت کرتا ہے۔
پی سی بی اور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے سابق سربراہ احسان مانی کے مطابق کرکٹ بورڈ مالی طور پر مکمل خودمختار ہے، حکومتوں سے فنڈز لینے یا انہیں رقم دینے کا پابند نہیں۔
احسان مانی نے کہا کہ کچھ ایسے ’سیاسی‘ چیئرمین ہیں جو کرکٹ بورڈ کی خودمختاری کا خیال نہیں رکھتے۔
کرکٹ بورڈ کو انٹرنیشنل کرکٹ بورڈ سالانہ بنیادوں پر ایک مخصوص فنڈ فراہم کرتا ہے جبکہ کرکٹ بورڈ کو سپانسرز اور دیگر ایونٹس کےانعقاد پر بھی مالی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
احسان مانی نے بتایا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا سالانہ بجٹ بورڈ کے اخراجات سے زیادہ ہی ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کرکٹ بورڈ کو حکومتی تعاون کی ضرورت نہیں پڑتی۔
’تاہم اگر کرکٹ بورڈ کا چیئرمین خود سیاسی ہو یا سیاستدانوں کے اثر و رسوخ میں ہو تو پھر وہ کرکٹ بورڈ کے مالی معاملات حکومت سے جوڑ لیتے ہیں۔‘

پاکستان ٹیم ٹی20 ورلڈ کپ 2024 کے پہلے مرحلےسے ہی باہر ہو گئی۔ فوٹو: اے ایف پی

آئی سی سی اور سپانسرز پی سی بی کے بڑے مالیاتی شراکت دار ہیں، سابق چیئرمین پی سی بی
سابق صدر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اور چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ احسان مانی نے پی سی بی کے مالیاتی شراکت داروں سے متعلق بتایا کہ سب سے پہلے انہوں نے آئی سی سی کے فل ممبرز کے لیے سالانہ بنیادوں پر ایک رقم مختص کی تھی جس کے بعد یہ سلسلہ باقاعدگی سے شروع ہو گیا۔
احسان مانی کا کہنا ہے کہ سال 2000 سے 2006 تک آئی سی سی نے 2.5 ارب ڈالر کے فنڈز پاکستان کرکٹ بورڈ کو دیے تھے۔
’میں نے آئی سی سی کو اس فیصلے پر قائل کیا تھا کہ سالانہ بنیادوں پر کرکٹ بورڈز کے لیے کچھ رقم مختص کی جائے اور اس فیصلے پر خود میں نے بھی بطور صدر آئی سی سی عمل درآمد کروایا۔‘
احسان مانی نے بطور صدر آئی سی سی اپنے دور میں پاکستان کرکٹ بورڈ کو ملنے والی رقم کے حوالے سے بتایا کہ سال 2000 سے 2006 تک آئی سی سی نے اڑھائی ارب ڈالرز کے فنڈز پاکستان کرکٹ بورڈ کو دیے تھے جن کی مالیت گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی۔
خیال رہے کہ چند سال پہلے آئی سی سی کا فنانشل شئیرنگ ماڈل تبدیل کر دیا گیا تھا جس کے بعد سے انڈیا سمیت کچھ کرکٹ بورڈز کو زیادہ رقم جبکہ باقیوں کو کم حصہ دیا جانے لگا ہے۔
احسان مانی کا کہنا تھا کہ آئی سی سی کے پُرانے فنانشل ماڈل کو حال ہی میں کرکٹ کے بڑے شراکت داروں نے تبدیل کر دیا ہے جس کے بعد اب تین بڑے کرکٹ بورڈز کو فنڈز کا بڑا حصہ مل جاتا ہے اور بچ جانے والی رقم دیگر کرکٹ بورڈز میں تقسیم کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں تمام فل ممبرز کے لیے ایک جنتی ہی رقم مختص کی جاتی تھی اور ایسوسی ایٹ ممبرز کو مجموعی رقم کا 25 فیصد دیا جاتا تھا۔
احسان مانی کے خیال میں آئی سی سی کے موجودہ فنانشل ماڈل میں بھی پاکستان کرکٹ بورڈ کو سالانہ 20 ملین ڈالرز مل رہے ہوں گے جو ویسے تین بڑے کرکٹ بورڈزکی نسبت کافی کم ہیں۔

ورلڈ کپ میں پاکستان کا صرف ایک بلے باز 50 رنز بنا سکا۔ فوٹو: اے ایف پی

سپانسرز اور ٹی وی رائٹس سے ملنے والی رقم
آئی سی سی کے علاوہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے دیگر مالیاتی ذرائع پر بات کرتے ہوئے احسان مانی نے بتایا کہ پی سی بی، پاکستان سپر لیگ اور بورڈ کے دیگر مستقل سپانسرز سے بھی اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ حاصل کرتا ہے، اس کے علاوہ پی ایس ایل اور انٹرنیشنل ہوم سیریز کے میڈیا رائٹس سے بھی فنڈز حاصل کیے جاتے ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ سے جڑے اُمور پر نظر رکھنے والے سینیئر سپورٹس جرنلسٹ مرزا اقبال بیگ کے مطابق پی سی بی وفاقی یا صوبائی حکومتوں سے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے کوئی رقم نہیں لیتا بلکہ بورڈ کا اپنا سالانہ بجٹ ہی اربوں روپے میں ہے۔
انہوں نے اُردو نیوز کو بتایا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اپنے مالی اخراجات انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کا فل ممبر ہونے کی وجہ سے ملنے والے فنڈز اور سپانسرز سے حاصل ہونے والی رقم سے چلاتا ہے۔
مرزا اقبال بیگ کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ پہلے تو وزارت بین الصوبائی رابطہ کے ماتحت تھا تاہم حالیہ عرصے کے دوران ہی پی سی بی کو اب اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ماتحت کر دیا گیا ہے
انہوں نے بتایا کہ پی سی بی کے اپنے بورڈ آف گورنرز ہیں جو ادارے کے سالانہ اخراجات اور بجٹ کی منظوری دیتے ہیں اور انہیں حکومتی منظورری کی ضرورت نہیں پڑتی۔

شیئر: