خیبر پختونخوا کے دو اہم عہدے ایک ہی ضلعے میں، جنوبی اضلاع کی حالت بدلے گی؟
خیبر پختونخوا کے دو اہم عہدے ایک ہی ضلعے میں، جنوبی اضلاع کی حالت بدلے گی؟
پیر 17 جون 2024 9:23
فیاض احمد، اردو نیوز۔ پشاور
فیصل کریم کنڈی کو گنڈاپور برادران کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ (فوٹو: اے پی پی)
خیبر پختونخوا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیراعلیٰ اور گورنر کے مناصب ایک ہی ضلعے کے حصے میں آئے مگر مبصرین کی رائے کے مطابق اس سے پسماندگی ختم ہونے کی بجائے سیاسی محاذ آرائی میں اضافہ ہو گا۔
آٹھ فروری کے عام انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا کے سیاسی منظرنامے میں اس وقت گہما گہمی بڑھی جب علی امین گنڈاپور ڈیرہ اسماعیل خان سے منتخب ہونے والے تیسرے وزیراعلیٰ بنے مگر دلچسپ صورت حال فیصل کریم کنڈی کو گورنر مقرر کرنے کے بعد پیدا ہوئی۔
صوبے کی تاریخ میں پہلی بار وزیراعلیٰ اور گورنر کے عہدے ایک ہی حلقے کے حصے میں آئے۔
فیصل کریم کنڈی اور علی امین گنڈاپور نہ صرف سیاسی حریف ہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ خاندانی تعلق بھی رکھتے ہیں۔
گورنر فیصل کریم کنڈی نے آبائی حلقے این اے 44 سے چار بار الیکشن لڑا مگر انہیں گنڈاپور برادران کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
دوسری جانب جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا تعلق بھی ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے اور وہ بھی اسی حلقے سے الیکشن لڑتے آئے ہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان صوبے کا دوسرا بڑا ضلع ہے۔ اس ضلعے کے مسائل بھی بڑے ہیں۔ ملک کی اہم سیاسی شخصیات کا تعلق اس ضلعے سے ہونے کے باوجود یہاں کے عوامی مسائل کم نہ ہو سکے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے بڑے مسائل کیا ہیں؟
ڈیرہ اسماعیل خان کا سب سے اہم مسئلہ امن و امان کا ہے۔ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری جیسے واقعات کی وجہ سے ڈی آئی خان سرفہرست ہے۔ پولیس کی اپنی رپورٹ کے مطابق سال 2023 میں ڈی آئی خان میں پولیس پر سب سے زیادہ حملے کیے گئے۔
امن و امان کے مخدوش حالات کے علاوہ اس ضلعے کو انفراسٹرکچر کی بدحالی کا سامنا ہے۔ شہر کے علاوہ دیہی علاقوں کی سڑکوں کی حالت ابتر ہے اور باقی رہی سہی کسر سیلاب نے پوری کی ہے۔
مقامی شہری رضوان اللہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ڈی آئی خان کے متعدد دیہی علاقے صاف پانی کی سہولت سے محروم ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’پی ٹی آئی کی گزشتہ حکومت میں پانی کے 79 منصوبے منظور ہوئے جس میں سے بیشتر سرکاری کاغذوں تک ہی محدود رہے۔
ڈی آئی خان کے شہری کے مطابق بچوں کے ہسپتال، برن سینٹر اور سیوریج کے پانی کے مسائل بھی درپیش ہیں۔
وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کون سے ترقیاتی کام کیے؟
ڈیرہ اسماعیل خان سے مسلسل تیسری مرتبہ علی امین گنڈاپور کامیاب ہوئے۔ پہلی بار سال 2013 میں کامیاب ہو کر صوبائی وزیر بنے۔ دوسری مرتبہ 2018 کے الیکشن میں جیت کر وفاقی وزیر جبکہ سال 2024 میں وہ دوبارہ کامیاب ہو کر صوبے کے وزیراعلیٰ بنے۔
اس وقت وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو ترقیاتی کاموں کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے، ان کا سیاسی میدان میں گورنر فیصل کریم کنڈی کا مقابلہ ہے۔ سیاسی حریف ہونے کی وجہ سے وزیراعلیٰ اور گورنر کے درمیان آئے روز سخت بیانات کا تبادلہ ہوتا ہے مگر مبصرین کے مطابق یہ محض ایک سیاسی محاذ آرائی ہے۔
صوبے کے معاملات چلانے کے لیے وفاق سے بقایاجات وصول کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔
رکن صوبائی اسمبلی اور مولانا فضل الرحمان کے بھائی لطف الرحمان نے موقف اپنایا کہ اس صوبے میں پی ٹی آئی کی جماعت کا نام بدلا ہے مگر ان کی حکومت کو 10 سال ہو گئے ہیں۔ ’یہ لوگ تیسری بار حکومت سنبھال چکے ہیں۔ آپ ان کے دعوؤں کو دیکھ کر حاصل شدہ اہداف کو دیکھیں گے تو آپ کو حقیقت کا پتا چلے گا۔‘
ایم پی اے لطف الرحمان کے مطابق پی ٹی آئی نے 10 سالوں میں جنوبی اضلاع کے لیے کوئی بڑا منصوبہ نہیں بنایا اور نہ ہی آئندہ مجھے کوئی امید نظر آ رہی ہے۔‘
نئے بجٹ میں جنوبی اضلاع کے لیے کیا ہے؟
صوبائی حکومت کے بجٹ 2024-25 میں ڈیرہ اسماعیل خان موٹروے کا منصوبہ شامل کیا گیا ہے جبکہ لفٹ کینال پروجیکٹ کے لیے 10 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے رکن صوبائی اسمبلی احسان اللہ نے بتایا کہ لفٹ کینال منصوبے کی منظوری ڈیرہ اسماعیل خان کے لیے بڑی خوشخبری ہے مگر انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ صوبائی حکومت نے منصوبے کے لیے 10 ارب روپے کا اعلان کیا جبکہ بجٹ تقریر میں 2 ارب مختص کیے جو کہ اس منصوبے کے لیے بہت ہی کم رقم ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر حکومت اس منصوبے کو مکمل کرنا چاہتی ہے تو لفٹ کینال کے لیے اعلان شدہ بجٹ مختص کرے۔‘
وزیراعلیٰ اور گورنر کا ایک شہر سے ہونے کا عوام کو فائدہ؟
ڈی آئی خان سے تعلق رکھنے والی سنیئیر صحافی فرزانہ علی نے اردو نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ صوبے کے اہم سیاسی رہنماؤں کا تعلق ایک ہی ضلع ڈی آئی خان سے ہے۔ وزیراعلیٰ، گورنر اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی ڈی آئی خان سے ہیں۔ اسی طرح آئی جی پولیس کا تعلق بھی ڈیرہ سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’موجودہ سیاسی ماحول میں ترقی کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی، صرف سیاست ہو رہی ہے۔ گورنر فیصل کریم کنڈی کہہ رہے ہیں کہ فلاں منصوبہ میں نے وفاق کو بجٹ میں شامل کرنے کی سفارش کی جبکہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور اپنا کریڈٹ لے رہے ہیں۔‘
صحافی فرزانہ علی نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت کو 10 سال ہو چکے لیکن ابھی تک انڈس ہائی وے کا منصوبہ مکمل نہیں ہوا جس کی وجہ سے ڈیرہ اسماعیل خان جانے والوں کو گھنٹوں کی مسافت طے کرکے پنجاب سی پیک روٹ سے ہو کر خیبرپختونخوا میں داخل ہونا پڑتا ہے۔
’مجھے کوئی بہتری کی امید نظر نہیں آرہی ہے کیونکہ کوئی بھی تعمیری سوچ نہیں رکھتا۔ ہر طرف گالم گلوچ، سیاسی بیان بازی اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہو رہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مولانا فضل الرحمان کے والد نے وہاں سے سیاست کی، پھر مولانا نہ صرف خود مسلسل سیاست میں فعال ہیں بلکہ ہر حکومت میں شراکت دار بھی رہے ہیں مگر پھر بھی ان کے آبائی علاقے سہولیات سے محروم ہیں۔‘
جنوبی اضلاع کی پسماندگی کا ذمہ دار کون؟
ڈی آئی خان سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی اور گورنر خیبرپختونخوا کے چھوٹے بھائی احمد کریم کنڈی نے کہا کہ ’جب ظفراللہ جمالی وزیراعظم بنے تو کیا بلوچستان کے مسائل حل ہو گئے تھے اور جب بے نظیر بھٹو شہید وزیراعظم بنیں تو کیا خواتین کے سارے مسائل حل ہو گئے تھے؟‘
’میری رائے یہ کہ پاکستان میں سٹرکچرل تبدیلی کی ضرورت ہے اور جب تک یہ پرانا نظام برقرار رہے گا، مسائل حل نہیں ہوں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جنوبی خیبرپختونخوا سمیت بلوچستان اور جنوبی پنجاب کیوں محروم ہیں۔ اس پر بحث و مباحثہ ہونا چاہیے تاکہ حقیقت سامنے آ سکے۔‘
وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے اپنے حالیہ بیان میں گورنر فیصل کریم کنڈی کو دھمکی دی کہ اگر وہ بیان دینے سے باز نہ آئے تو ان کو گورنر ہاؤس سے نکال دیا جائے گا۔