Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کویت: 1990 میں یرغمال بنائے گئے مسافروں کا برطانوی حکومت کے خلاف مقدمہ

مسافروں اور عملے سمیت 367 افراد نے چار ماہ سے زائد عرصہ قید میں گزارا تھا (فوٹو: اے پی)
1990 میں کویت میں یرغمال بنائے گئے برٹش ایئرویز کی پرواز کے مسافروں اور عملے نے برطانوی حکومت اور ایئرلائن کے خلاف قانونی کارروائی شروع کر دی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق برٹش ایئرلائنز کی پرواز 149 میں سوار مسافروں کو کوالالمپور کے بجائے ایک خلیجی ریاست میں دو اگست کو اُتار لیا گیا تھا۔ یہ واقعہ صدام حسین کی فوجوں کے کویت میں داخل ہونے کے چند گھنٹے بعد پیش آیا تھا۔
جہاز میں سوار مسافروں اور عملے سمیت 367 افراد نے چار ماہ سے زائد عرصہ  قید میں گزارا تھا جنہیں عراقی آمر نے انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا تھا۔
قانونی فرم میک کیو جیوری اینڈ پارٹنرز نے بتایا ہے کہ ان میں سے 94 افراد نے لندن میں ہائی کورٹ میں دعویٰ دائر کیا ہے جس میں برطانوی حکومت اور برٹش ایئرلائنز پر ’شہریوں کو جان بوجھ کر خطرے میں ڈالنے‘ کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
قانونی فرم نے مزید کہا کہ ’تمام دعویدار جسمانی اور نفسیاتی طور پر متاثر ہوئے جس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔‘
مذکورہ افراد کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’برطانیہ کی حکومت اور ایئر لائن کو معلوم تھا کہ حملہ ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود پرواز کو لینڈ کرنے کی اجازت دی گئی۔‘
فرم کے مطابق انہوں نے ’خفیہ سپیشل آپریشنز ٹیم کو مقبوضہ کویت میں اُتارنے کے لیے پرواز کا استعمال کیا۔‘
کویت پر عراقی قبضے کے دوران برٹش ایئرویز کی پرواز بی اے 149 کی کویت میں لینڈنگ اس لیے متنازع ہے کیونکہ اس کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس پرواز کو برطانوی حکومت نے ایک خفیہ مشن کے لیے استعمال کیا۔
پرواز 149 میں سوار بیری مینرز جو اس قانونی کارروائی میں شریک ہیں، نے بتایا کہ ’ہمارے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا گیا جو شہریوں کے ساتھ کیا جاتا ہے بلکہ تجارتی اور سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیے جانے والے پیادوں جیسا برتاؤ کیا گیا۔‘

پرواز 149 کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسے برطانوی حکومت نے ایک خفیہ مشن کے لیے استعمال کیا (فوٹو: عراقی ٹی وی)

نومبر 2021 میں جاری ہونے والی برطانوی حکومت کی رپورٹس سے انکشاف ہوا کہ کویت میں برطانیہ کے سفیر نے پرواز کے اُترنے سے قبل عراق پر حملے کی اطلاعات کے بارے میں لندن کو آگاہ کیا تھا لیکن یہ پیغام برٹش ایئرلائنز تک نہیں پہنچایا گیا۔
ایسے دعوے بھی کیے گئے ہیں کہ لندن نے جان بوجھ کر جاسوسوں کو اُتارنے کے لیے پرواز کا استعمال کرکے مسافروں کی جان کو خطرے میں ڈالا اور انہیں سوار ہونے کی اجازت دینے کے لیے ٹیک آف میں تاخیر کی۔
تاہم حکومت ان دعوؤں کی تردید کرتی ہے۔ برطانیہ کی حکومت نے اس قانونی کارروائی پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
برٹش ایئرویز لاپرواہی، سازش اور پردہ پوشی کے الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
ایئر لائن نے اے ایف پی کی جانب سے تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا تاہم گزشتہ سال کہا تھا کہ 2021 میں جاری کیے گئے ریکارڈز نے تصدیق کی ہے کہ برٹش ایئرویز کو حملے کے بارے میں خبردار نہیں کیا گیا تھا۔

شیئر: