Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پڑھنے کے قابل کچھ باتیں: عامر خاکوانی کا کالم

مصنف چارلس جے سائیکس کی کتاب کے نکات پڑھنے کے لائق ہیں۔ فوٹو: فری پِکس
کہا جاتا ہے کہ مائیکروسافٹ کے بانی اور دنیا کے چند امیر ترین افراد میں شامل بل گیٹس کو امریکہ کے ایک معروف تعلیمی ادارے میں تقریر کے لیے مدعو کیا گیا، وہ اپنے ہیلی کاپٹر سے اترا۔ جیب سے کاغذ نکلا، جس پر اس نے چند نکات لکھ رکھے تھے۔ وہ تقریر کرنے سٹیج پر آیا، پانچ منٹ میں اپنے تمام نکات پڑھ ڈالے اورپھر 10 منٹ تک اس کے اعزاز میں طلبہ پرجوش تالیاں بجاتے رہے۔ بل گیٹس نے کاغذ واپس اپنی جیب میں ڈالا اور اپنے ہیلی کاپٹر کی طرف چل دیا۔
بل گیٹس سے منسوب یہ واقعہ بیان کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ بل گیٹس نے نکات پڑھنے سے پہلے طلبہ سے کہا کہ ’میں نے زندگی میں درجن بھر ایسی اہم باتیں سیکھی ہیں، جو سکول میں مجھے سیکھ لینی چاہیے تھیں۔ یہ زندگی کے حقائق ہیں جنہیں سکولوں میں سکھایا جاتا ہے نہ ہی شاید یہ باتیں سکول میں سیکھی جا سکتی ہیں۔‘
نکتے بیان کرنے والے کا کہنا تھا کہ روایتی تعلیم و تربیت نے بچوں کی ایک ایسی نسل کو پیدا کیا ہے جسے حقائق کا ادراک نہیں اور یہی وجہ حقیقی دنیا میں ان کی ناکامی کا باعث ہے۔ 
تمام نکات ہی دلچسپ ہیں، ایک پوائنٹ تو کمال کا ہے، جسے ہمارے ہاں خاص طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ زندگی میں سمسٹرز نہیں ہوتے۔ وہاں کٹ تھروٹ مقابلہ ہے، رعایت ملتی ہے نہ اس کی توقع کرنی چاہیے۔ 
  نکات کچھ یوں ہیں:
1 ۔ یہ شکوہ نہ کریں کہ لائف از ناٹ فیئر، زندگی کسی کے ساتھ فیئر نہیں، خود کو اس (رویے) کا عادی بنائیں۔
:2 2۔ دنیا کو آپ کی عزتِ نفس کی کوئی پروا نہیں۔ دنیا آپ سے توقع کرتی ہے کہ (عزت نفس جیسی عیاشی سے پہلے ) آپ عملی طور پر کچھ کر کے دکھائیں۔ 
3 ۔ تعلیم سے فراغت پاتے ہی آپ لوگ ساٹھ ہزار ڈالر سالانہ یعنی پانچ ہزارڈالرماہانہ کمانا شروع نہیں کر دیں گے ۔ آپ فوری طور پر کسی بڑی کمپنی کےنائب صدر بھی نہیں بن سکتے جوڈیزائنر سوٹ پہنتا اورکمپنی کی آفیشل شاندارگاڑی رکھتا ہے۔ یاد رکھیں ساٹھ ہزار ڈالر سالانہ تنخواہ ، بڑی لگژری گاڑی اوردیگر سہولتیں جاں جوکھوں سے کمانا پڑیں گی۔ 
4 ۔ زندگی میں سمسٹرز نہیں ہوتے۔ کالج، یونیورسٹی کی طرح زندگی میں گرمیوں کی چھٹیاں بھی نہیں ملتیں۔ یہ ذہن میں رہے کہ جب آپ جاب کرو گے تو آپ کے باس کو آپ کا پوٹینشل ڈھونڈنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوگی۔ اپنے اندر پوشیدہ صلاحیتیں خود ہی ڈھونڈیں اور دوسروں پر یہ ثابت کریں۔ یہ کام آپ نے خود ہی کرنا ہوگا، کسی اور کے پاس اتنا وقت ہے نہ فرصت ۔ 
5 ۔ چھوٹی موٹی نوکریاں کرنا آپ کی ”عظمت“ کے منافی نہیں۔ آپ سے پچھلی نسل یعنی آپ کے والدین کے زمانے میں اسے چھوٹی نوکری نہیں سمجھا جاتا تھا۔ وہ اسے (آگے بڑھنے کا) موقع سمجھتے تھے۔ وہ کسی ریسٹورنٹ میں برگر تلنے کی ملازمت کو بھی اہم سمجھتے تھے۔
6 ۔ اگر آپ غلطی کرتے ہیں تو یہ آپ ہی کا قصورہے ( آپ کے والدین کی غلطی نہیں)، اس لیے اپنی غلطیوں پر چیں چیں کرنے کے بجائے ان سے سبق سیکھیں۔
7 ۔ آپ کے پیدا ہونے سے قبل آپ کے والدین کی زندگی میں اتنی بیزاری اور بدمزگی نہیں تھی جتنی اب ہے۔ زندگی میں یہ تبدیلی آپ کے اخراجات اٹھانے، آپ کے لیے کھانے پکانے، میلے کپڑے دھونے اور آپ کی بونگیاں سن سن کر پک جانے سے ہوئی۔ 
8 ۔ آپ کے سکول کا زمانہ اختتام کو پہنچے گا تو کچھ جیتنے والوں میں شمار ہوں گے اور کچھ ہارنے والوں میں، لیکن زندگی ایسی نہیں۔ کچھ سکولوں میں توطلبا کو فیل ہی نہیں کیا جاتا۔ وہاں آپ کو اس وقت تک مواقع دیے جاتے ہیں جب تک آپ درست جواب نہیں دے دیتے۔ حقیقی زندگی میں ایسی صورت حال کی رتی برابر مماثلت نہیں پائی جاتی۔ وہاں ہار جیت کا معاملہ ہی مختلف ہے۔
9 ۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ آپ کا استاد بہت سختی سے کام لیتا ہے پھر اس وقت کا انتظار کریں جب آپ کو ایک نامعقول باس کے ماتحت کام کرنا پڑے گا۔
10 ۔ ٹی وی ڈرامے کے سیزن اور فلموں میں دکھائی جانے والی زندگی حقیقی نہیں، زندگی کی فیملی ڈرامے یا کامیڈی سٹ کام کی طرح نہیں جو چالیس منٹ میں ختم ہو جائے گا۔ اس میں سے بھی کئی منٹ اشتہارات کے ہوتے ہیں۔ حقیقی زندگی میں لوگوں کو مزے سے بیٹھ کر کافی پینے کے بجائے نوکری پر جانا پڑتا ہے۔ انہیں ہر روز دس بارہ گھنٹے باقاعدہ خجل خوار ہونا پڑتا ہے۔ آپ کے کولیگز بھی فلمی ہیروئن کی طرح دلکش یا خوش مزاج نہیں ہوتے۔ وہ سڑیل اور سازشی ہو سکتے ہیں۔ 

 سوشل میڈیا پر بعض باتیں کسی مشہور شخصیت سے منسوب ہو جاتی ہیں اورپھر یہ سلسلہ برسوں آگے چلتا رہتا ہے۔ فائل فوٹو

11 ۔ بہت پڑھاکو اور کتابی کیڑے قسم کے طلبہ کا مذاق نہ اڑایا کرو۔ ان سے اچھا برتاﺅ کریں۔ اس بات کے (قوی) امکانات ہیں کہ آپ کو کسی ایسے ہی شخص کی ماتحتی میں کام کرنا پڑے۔
12 ۔ سگریٹ پینا آپ کو ہیرو یا کول نہیں بناتا، اس سے آپ البتہ احمق نظر آ سکتے ہیں۔ اور یہی معاملہ عجیب وغریب ہیئر سٹائل اور ٹیٹو وغیرہ بنوانے کا بھی ہے۔ 
 13 ۔ یہ عمر اور زمانہ آپ کو بعد میں بہت یاد آئے گا، یہ ٹھیک ہے کہ والدین ہر وقت تنقید کرتے رہتے، سکول، کالج بور اور تکلیف دہ ہو جاتے ہیں، زندگی میں بھی بہت سے مسئلے چلتے رہتے ہیں، مگر یقین کرو ایک دن آپ یہ سب کچھ بہت مس کرو گے۔ ٹین ایج میں ہونا ایک مزے کی چیز بھی ہے۔ 
(سکولوں میں دی جانے والی ناکافی تعلیم کے باوجود) اگر آپ یہ نکات پڑھ یا سمجھ سکتے ہیں تو اس کے لیے اپنے استاد کے شکرگزار ہوں۔ اپنی زندگی اور جو کچھ آپ کے پاس ہے اس کے لیے خدا کا شکر ادا کریں۔ اگر آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں تو مسکرا کر اسے دوسروں تک پہنچائیں۔
 سوشل میڈیا پر بعض باتیں کسی مشہور شخصیت سے منسوب ہو جاتی ہیں اورپھر یہ سلسلہ برسوں آگے چلتا رہتا ہے۔ زندگی میں کچھ نیا نہ کرنے پر آہستہ آہستہ مر جانے کے خیال پر ایک مشہور نظم پابلونرودا سے منسوب ہو گئی، بعد میں پتہ چلا کہ اس کا شاعر کوئی اور ہے۔
اسی طرح سوشل میڈیا پر مائیکروسافٹ کے بانی اور دنیا کے چند ا میر ترین افراد میں شامل بل گیٹس کی یہ تقریر مشہور ہے۔ ایک بیانیہ یہ ہے کہ بل گیٹس نے یہ تقریر کی تھی، تاہم ایک اور موقف یہ ہے کہ ایک امریکی مصنف چارلس جے سائیکس نے یہ پوائنٹ 90 کے عشرے میں اپنے ایک مضمون میں استعمال کیے تھے جو نجانے کیسے بعد میں بل گیٹس سےمنسوب ہو گئے۔ 
 یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بل گیٹس نے یہ کہیں پڑھے ہوں اور اپنی کسی تقریر میں استعمال کر لیا ہو یا پھر یہ سب ایک مغالطہ ہی ہو۔ 
بہرحال اس مصنف چارلس جے سائیکس نے ان پوائنٹس میں اضافہ کر کے انہیں 50 نکات بنا کر ’رولز کِڈز وونٹ لرن اِن سکول‘ لکھی جو میں نے کسی طرح ڈاؤن لوڈ کر لی ہے۔ ممکن ہوا تو کبھی اس کے دیگر نکات بھی قارئین سے شیئر کروں گا۔ بہرحال یہ نکات بل گیٹس کے لکھے ہوئے نہ ہوں تب بھی اس قابل ہیں کہ انہیں پڑھا، سمجھا اور سیکھا جائے۔
جاتے جاتے چارلس جے سائیکس کی کتاب سے چار پانچ پوائنٹس جھونگے کے طورپر چکھ لیں۔ جھونگا تو آپ سمجھتے ہی ہوں گے؟ اصل چیز کے ساتھ جو تھوڑی سی چیز بونس میں مل جائے اسے جھونگا کہتے ہیں۔ 
چارلس کہتا ہے:
کیا آپ کوکچھ برا لگا ہے؟ اچھا واقعی؟ نہیں یار۔ چلو اگر لگا ہے تب بھی کیا ہو گیا؟ 
جیتنے والوں کا اپنا زندگی کا ایک فلسفہ ہوتا ہے، ویسے ہارنے والے بھی کچھ ایسا ہی سوچتے ہیں۔
بلیک اینڈ وائٹ فلموں کے کردار بھی عام زندگی میں رنگین ہوتے ہیں اور ہاں یہ مت سوچنا کہ دنیا تب شروع ہوئی تھی جب آپ پیدا ہوئے، نہیں یہ کب سے ہے اور نجانے کب تک رہے۔

شیئر: