اشفاق احمد کی باتیں جنہیں میں کبھی نہ بھول سکا، عامر خاکوانی کا کالم
اشفاق احمد کی باتیں جنہیں میں کبھی نہ بھول سکا، عامر خاکوانی کا کالم
جمعرات 27 جون 2024 10:02
اشفاق احمد کا شمار پاکستان کے بڑے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ فوٹو: فیس بک
میری زندگی کی چند نہایت خوشگوار اور حسین یادوں میں اردو کے منفرد افسانہ نگار، داستان گو اشفاق احمد سے ملاقاتیں شامل ہیں۔ ان سے پہلی ملاقات کم وبیش اٹھائیس سال پہلے ہوئی۔ سردیوں کی ایک دوپہر ہم نے ان کے گھر داستان سرائے کے ڈرائنگ روم میں گزاری۔
اس ملاقات اور اس کے کچھ عرصہ بعد والی نشست میں اشفاق صاحب سے چار پانچ باتیں سیکھیں۔
پہلی بات یہ کہ دوسروں کو مان لینے میں ضد اور سختی نہیں دکھانی چاہیے۔ اگر کوئی دعویٰ کرتا ہے تو اس سے بحث کے بجائے اسے مان لو، اپنی انا کا مسئلہ نہ بناﺅ۔ اس پر اشفاق صاحب سے خاصی بحث کی اور نوجوانی کے جوش میں کئی احمقانہ باتیں بھی کہہ ڈالیں۔ اشفاق احمد نے مگر ایسے پیار اور نرمی سے سمجھایا کہ بات ذہن نشیں ہوگئی۔
دوسرا انہوں نے یہ سمجھایا کہ اپنی ذات کو کبھی فیک نہ بننے دو، اوریجنلٹی برقرار رکھو۔
اشفاق صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں کہا، ’اپنے گرد پھٹے نہ کھڑے کرو۔ جو ہو وہی رہو، خود کو وہی سمجھتے رہو۔ یہ ڈاکٹر، پروفیسر، دانشور، پی ایچ ڈی وغیرہ وغیرہ مختلف پھٹے ہی ہیں جن کے حصار میں ہم اپنی اصل شخصیت کو مقید کر دیتے ہیں۔‘
تیسری بات یہ سیکھی کہ ہر ایک کے تضادات ہوتے ہیں، چاہے وہ بابا اشفاق احمد ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے کسی دوسرے کو کاپی کرنے کے بجائے اپنا الگ راستہ بنانا چاہیے اور اپنے تضادات کو خود محنت کر کے دور کیا جائے۔
چوتھی بات انہوں نے کلچر کے حوالے سے سمجھائی، مگر یہ بھی کہا کہ اسے ابھی لکھنا نہیں کیونکہ میں اس پر تفصیل سے لکھنا چاہتا ہوں۔
اشفاق صاحب کو مٹی اوڑھے ہوئے دو عشرے ہوچکے۔ وہ شاید اس موضوع پر نہیں لکھ پائے۔ اس ملاقات میں انہوں نے کہا کہ ’کلچر کی ساٹھ سے زیادہ تعریفیں (Definition) موجود ہیں مگر میرے نزدیک سب سے اہم پیدائش یعنی زندگی کا آغاز اور موت یعنی زندگی کا اختتام ہے۔ آپ کی پیدائش اور موت کی رسمیں یا طریقے جہاں مشترک ہیں، سمجھ لو کہ ان کے ساتھ آپ کا کلچرمشترک ہے۔‘
میں نے اس پر چونک کر پوچھا کہ شاعری، موسیقی، فلمیں وغیرہ؟ کہنے لگے ’وہ میرے نزدیک کلچر نہیں فنونِ لطیفہ ہیں۔ اسی تناظر میں کہنے لگے کہ ہمارے پڑوسی ملک کے پنجاب کے ساتھ پاکستانی پنجاب کا کلچر مشترک ہونے کی بات کی جاتی ہے، مگر درحقیقت ہمارے فنون لطیفہ مشترک ہیں، کلچر نہیں۔ اس لیے کہ ہمارا جم پل اور موت ان سے بالکل الگ اور مختلف ہے۔‘
پہلی ملاقات کے بعد اس زمانے کے معروف رواج کے مطابق ان سے آٹو گراف مانگا، اشفاق صاحب نے ایک سطر لکھی: ’زنجیر کی کمزور کڑی ہی سب سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے کہ وہ جب چاہے زنجیر کو توڑ سکتی ہے۔‘
یہ بات تب تو بالکل ہی پلے نہ پڑی، بعد میں سوچتے رہے تو اس کی گہرائی اور افادیت کا اندازہ ہوا۔
اشفاق احمد کی مگر ایک اور بات جس نے بہت انسپائر کیا، وہ برسوں بعد ان کے ٹی وی پروگرام زاویہ کے ایک کلپ میں دیکھی۔ اس پر آگے جا کر بات کرتا ہوں۔
اشفاق صاحب کے ٹی وی ڈرامے مشہور ہوئے، ان کے افسانوں کا بھی کوئی جواب نہیں۔ اردو فکشن نگاروں کی کوئی بھی فہرست ان کے نام کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ ان کا اپنا ہی ایک خاص طرز اسلوب تھا جس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔
جب کبھی کوئی نوجوان اردو ادب کے مطالعے کے حوالے سے مشورہ مانگے تو اسے اشفاق احمد کو پڑھنے کی رائے ضرور دیتا ہوں۔ منٹو، کرشن چندر، بیدی، غلام عباس، پریم چند اور احمد ندیم قاسمی میرے نزدیک اردو افسانے کے چھ سب سے بڑے اور ممتاز نام ہیں۔
اس فہرست میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ انتظار حسین، بلونت سنگھ کے نام شامل ہوسکتے ہیں مگر اشفاق احمد کو ڈالے بغیر یہ فہرست مکمل نہیں ہوسکتی۔
اشفاق احمد کی ریڈیو پروگرام ’تلقین شاہ‘ میں گفتگو بھی کمال کی ہے۔ اب ’تلقین شاہ‘ کی وہ نشستیں کتابی صورت میں چھپ چکی ہیں۔ کئی جلدیں چھپی ہیں۔ مجھے دلچسپی ہے کہ کاش ریڈیو پاکستان ’تلقین شاہ‘ پروگرام کی اوریجنل وائس کو اپنی ویب سائٹ پر محفو ظ کر دے، جسے دلچسپی ہو وہ بذات خود سن لے۔
اشفاق صاحب کی آخری کتاب جو انتقال کے بعد شائع ہوئی، وہ ’بابا صاحبا‘ ہے۔ اس میں بہت سا دلچسپ مواد شامل ہے۔ آخر میں خاصے صفحات ان نوٹس کے ہیں جو اشفاق صاحب نے مختلف بزرگوں کی گفتگو سے لیے تھے۔ کاش انہیں ان نوٹس پر کام کر کے باقاعدہ کتاب بنانے کا موقع مل سکتا۔
اشفاق احمد کا ٹی وی پروگرام ’زاویہ‘ کمال ہے۔ مجھے ہمیشہ یوں لگا کہ قدرت نے اشفاق صاحب سے آخری برسوں میں ’زاویہ‘ پروگرام کے ذریعے جو کام لیا، وہ ان کے پچھلے گراں قدر تخلیقی کام سے کم نہیں۔
ہمارے ترقی پسند، لبرل دوست اشفاق احمد کو ناپسند کرتے ہیں کہ اشفاق احمد اور ممتاز مفتی وغیرہ نے بابوں کا ذکر کر کے بہت کنفیوژن پھیلائی۔ میری را ئے اس حوالے سے مختلف ہے۔ ’زاویہ‘ کے بہت سے پروگرام میں نے دیکھے۔ ان میں سے بیشتر دل پر نقش ہیں۔
ایک پروگرام مجھے اکثر صبح کے وقت یاد آتا ہے۔ ایک دن اشفاق احمد نے اپنے مخصوص دھیمے، پر اثر انداز میں گفتگو شروع کی تو یہ انکشاف کیا کہ ’ہر روز صبح میں اور میری بیوی بانو قدسیہ ایک کام کرتے ہیں۔ ہمارے بستر کی سائیڈ ٹیبل پر عید اور دیگروش کارڈز کا پلندہ پڑا ہے، جو مختلف دوست اوردوستوں، رشتے دار ہمیں بھیجتے ہیں۔ ہم انہیں اٹھاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ سائز میں بڑے، بعض چھوٹے ہیں، لیکن ان سب کو ایک ترتیب میں رکھ کر میں ہاتھ میں اٹھاتا اور گھماتا ہوں، پھر اوپر جو کارڈ آئے، اسے کھول کر دیکھتا ہوں۔ میں اور میری بیوی آپس میں کہتے ہیں کہ کارڈ بھیجنے والی کی کس قدر مہربانی ہے کہ اس نے ہمیں یاد رکھا۔ اپنے مصروف وقت میں سے کچھ لمحات نکال کر یہ کارڈ لیا، ہمارے لیے پیغام لکھا اور پھر ڈاک یا کوریئر کے ذریعے بھیجا۔ ہم میاں بیوی دل کی گہرائیوں سے ایسا کرنے والے کے لیے اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اپنی خاص رحمتیں ان پر نازل کرے۔
’اس کے بعد ان کارڈز کو ایک بار پھر اوپر نیچے کر کے ایک اور کارڈ نکالتے ہیں، پھر تیسرا۔ ہم ہر صبح اپنے وقت کا کچھ حصہ کارڈز بھیجنے والوں کے لیے ممنونیت کے جذبات سے معمور دعاﺅں میں صرف کرتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ ان دوستوں نے ہمارے اوپر جو مہربانی کی، ہم اپنے اس عمل کے ذریعے ایک لحاظ سے اس کا کسی حد تک جوابی شکریہ ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
کئی برس پہلے سنے ہوئے ٹی وی پروگرام کی یادداشت کو میں نے بے ربط الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سے مگر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب اشفاق صاحب نے اپنے مخصوص سحرانگیز انداز میں سنایا ہوگا تو کیسا سماں باندھا ہوگا۔
اس وقت یہ عہد کیا کہ اپنی زندگی میں بھی اس عمل کو جاری کیا جائے، مگر وہی ہوا جو اس قسم کے اچھے عہد کے ساتھ ہوتا ہے۔ کچھ دن گزرے تو پھر مشینی انداز کی رواں دواں زندگی میں ہر بات بھول گئے۔ یہ بات مگر کبھی کبھار یاد آتی ہے تو بے اختیار احساس ہوتا ہے کہ طریقہ کار خواہ کوئی بھی ہو، مگر ہمیں کسی طریقے سے ان لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے ، جو ہماری زندگی میں اہم رہے ہیں۔
زندگی کے کسی مرحلے پر جنھوں نے ہمارا ہاتھ پکڑا اور کٹھنائیوں سے باہر نکلنے میں مدد کی، بریک تھرو فراہم کر دیا، معاشی مشکل آسان کی، زندگی کو خوبصورت بنانے میں مدد کی، اچھا مشورہ دیا۔ سب سے بڑھ کر وہ اساتذہ جن سے ہم نے علم حاصل کیا، جن کی وجہ سے ہماری زندگیوں میں شعور کی روشنی آئی اور سوچنا سیکھا۔
شکریہ ادا کرنے کے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں۔ جو لوگ صاحب وسائل بن چکے ہیں، وہ بڑی آسانی کے ساتھ اپنے محسنوں کی مدد کر سکتے ہیں، اس طریقہ سے کہ ان کی خودداری اور عزت نفس مجروح نہ ہو۔ تحفے، تحائف کی شکل میں جوابی شکریہ ادا کرنے کا وہ سدا بہار طریقہ ہے جو صدیوں سے جاری ہے، ہمیشہ رہے گا۔
اگر زیادہ کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم دعاﺅں میں تو انہیں یاد رکھا جائے۔ اپنے ساتھ بھلائی کرنے والے لوگوں کو یاد رکھنا، ان کے لیے کلمہ خیر کہنا، خلوص دل سے دعا کہنا بھی ایک طرح سے ان کی مہربانی، نوازشات ک اخوبصورت جواب ہے۔