Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا کی بڑھتی ہوئی معیشت پانی کے بحران کے باعث خطرے میں

موڈیز نے گذشتہ ہفتے خبردار کیا تھا کہ انڈیا میں پانی کا بڑھتا ہوا بحران اس کی ترقی کو متاثر کر سکتا ہے (فوٹو: روئٹرز)
نئی دہلی میں امریکی سفارت خانے سے متصل وویکانند کیمپ کی کچی آبادی میں نلکوں سے روزانہ تقریباً دو گھنٹے تک کھارا پانی فراہم ہوتا ہے۔ ٹینکروں کے ذریعے پہنچایا جانے والا پانی اس کے ایک ہزار رہائشیوں میں سے ہر ایک کو پینے اور کھانا پکانے کے لیے ایک اضافی بالٹی فراہم کرتا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق انڈین دارالحکومت کے جنوب مغرب میں بنجر ریاست راجستھان کے کچھ حصوں میں ہر چار دن میں ایک گھنٹے کے لیے نل کا پانی دستیاب ہے۔ ممبئی کے قریب دیہی علاقوں میں خواتین اور بچے پانی لینے کے لیے ایک میل سے زیادہ کا سفر طے کرتے ہیں۔
بنگلورو، انڈیا کا ایک کروڑ 40 لاکھ افراد کی آبادی والا ٹیک حب، اس سال پانی کی قلت کا شکار ہوا اور اسے ٹینکرز کے ذریعے پانی کی ترسیل پر انحصار کرنا پڑا۔
دہلی کے وویکانند کیمپ میں 38 سالہ سمپا رائے نے کہا کہ ’ہم کئی دنوں تک نہ تو فرش دھوتے ہیں اور نہ ہی کپڑے دھوتے ہیں، یہاں تک کہ برتن بھی نہیں۔ جو کچھ ہمارے پاس ہے اسی سے ہر چیز کا انتظام کرنا ہوتا ہے۔‘
دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک دہائیوں سے پانی کی قلت کا شکار ہے، لیکن بحران میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر رواں برس موسم گرما ریکارڈ پر سب سے زیادہ گرم رہا ہے اور ندیوں اور جھیلوں کے خشک ہونے اور پانی کی سطح گرنے سے بحران مزید بڑھ گیا ہے۔
یہ قلت دیہی اور شہری سطح پر لوگوں کو یکساں طور پر متاثر کر رہی ہے، زراعت اور صنعت کو متاثر کر رہی ہے، مہنگائی میں اضافہ کر رہی ہے اور سماجی امن کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ حکومت کے مطابق آلودہ پانی سے ہر سال تقریباً دو لاکھ انڈین شہری ہلاک ہوتے ہیں۔
ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے گذشتہ ہفتے خبردار کیا تھا کہ انڈیا میں پانی کا بڑھتا ہوا بحران اس کی ترقی کو متاثر کر سکتا ہے، جو کہ اس اپریل سے مارچ کے مالی سال میں متوقع 7.2 فیصد کے ساتھ بڑی معیشتوں میں سب سے زیادہ ہے۔
موڈیز نے کہا کہ ’پانی کی فراہمی میں کمی زرعی اور صنعتی پیداوار میں خلل ڈال سکتی ہے، جس کے نتیجے میں کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ اور خاص طور پر کسانوں کی آمدنی میں کمی کے ساتھ سماجی بے چینی کو جنم دے سکتی ہے۔‘
21 اکتوبر 2023 کی وفاقی حکومت کی پالیسی دستاویز، جس میں اگلے پانچ سالوں کے لیے ترجیحات درج کی گئی ہیں، کے مطابق حکومت دہائی کے آخر تک گندے پانی کی تین گنا سے زیادہ ری سائیکلنگ کو 70 فیصد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ریاست کے زیر انتظام نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ایک سینیئر اہلکار کرشنا ایس وتسا نے گذشتہ ہفتے ایک انٹرویو میں اہداف کی تصدیق کی۔

حکومت کا کہنا ہے کہ 83 ہزار سے زائد جھیلوں پر کام شروع یا مکمل کیا جا چکا ہے (فوٹو اے پی)

دستاویز میں کہا گیا ہے کہ حکام تازہ پانی یعنی زمینی پانی اور دریاؤں اور جھیلوں سے سطحی پانی کے اخراج کو دہائی کے آخر تک 66 فیصد سے کم کر کے 50 فیصد سے کم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
کرشنا ایس وتسا نے کہا کہ اس سال گاؤں کی سطح کا پروگرام بھی شروع کیا جائے گا تاکہ مقامی پانی کی دستیابی کی بنیاد پر کسان فصلوں کی کاشت کر سکیں۔
پانی کے بحران سے نمٹنے کے منصوبوں کی تفصیلات پہلے نہیں بتائی گئی ہیں۔
وزیراعظم نریندر مودی نے پہلے ہی حکام کو حکم دیا ہے کہ وہ ملک کے 785 اضلاع میں سے ہر ایک میں کم از کم 75 جھیلوں کی تعمیر یا تجدید کریں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ 83 ہزار سے زائد جھیلوں پر کام شروع یا مکمل کیا جا چکا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی جھیلیں پانی کی سطح کو ری چارج کرنے میں مدد کر سکتی ہیں۔
مودی نے 2019 میں تمام دیہی گھرانوں کو نل کا پانی فراہم کرنے کے لیے تقریباً 50 ارب ڈالر کا پروگرام شروع کیا تھا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے اب ایک کروڑ 93 لاکھ سے زیادہ ایسے خاندانوں میں سے 77 فیصد کو کور کیا ہے، لیکن رہائشیوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ تمام پائپوں میں پانی نہیں ہے۔

شیئر: