Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈاکو مان سنگھ جن کے نام سے امیتابھ بھی بچپن میں خوفزدہ رہتے تھے

رپورٹس کے مطابق ڈاکو مان سنگھ امیروں کو لوٹتا تھا اور ان کی دولت غریبوں میں تقسیم کر دیتا تھا (فائل فوٹو: بمبے ریڈز)
آپ نے انڈیا کی بلاک بسٹر فلم ’شعلے‘ میں ڈاکو گبر سنگھ (امجد خان) کو کہتے ہوئے سنا ہوگا کہ ’یہاں سے 50-50 کوس دور گاؤں میں جب رات کو بچہ روتا ہے تو ماں کہتی ہے کہ بیٹے سو جا ورنہ گبر سنگھ آ جائے گا‘
اس فلم میں جے کا کردار ادا کرنے والے صدی کے عظیم اداکار امیتابھ بچن کہتے ہیں کہ انہیں بچپن میں ڈاکو مان سنگھ کا خوف ستاتا تھا اور انہیں ان کے نام سے ڈرایا جاتا تھا۔
فلموں میں بے شمار ڈاکوؤں سے لڑنے والے امیتابھ بچن اپنی اصل زندگی میں ڈاکو مان سنگھ سے خوفزدہ رہتے تھے۔ انہوں نے اپنے ایک بلاگ میں لکھا ’الٰہ آباد میں گرمیوں کے مہینوں میں جب سورج غروب ہو جاتا اور زمین کو ٹھنڈا کرنے کے لیے لان کو پانی دیا جاتا تھا، شام کو گھرکے سب لوگ باہر بیٹھتے تھے اور جیسے ہی رات آتی تھی بڑے بزرگ ہم سے کہا کرتے تھے گھر کے اندر جاؤ اور کمروں میں روشنی کر دو۔‘
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’یہ ہمارے لیے انتہائی تکلیف دہ بات ہوتی تھی کیونکہ جس لان میں ہم بیٹھے ہوتے تھے وہاں سے بس 50 فٹ کی دوری پر ہی گھر ہوتا تھا۔ لیکن گھر کے اندر داخل ہوتے ہی اندھیرے کا خوف آ جاتا تھا۔ ہمیں اکثر ایسا لگتا جیسے مان سنگھ اچانک کسی دروازے کے پیچھے سے نمودار ہو گا اور ہمیں اٹھا کر لے جائے گا۔ اس لیے خوف سے ہم پھر سے وہیں سڑک جاتے جہاں بزرگ بیٹھے تھے!‘
انہوں نے اپنے بلاگ میں لکھا کہ جب وہ چھوٹے تھے تو وہ ڈاکو مان سنگھ سے خوفزدہ رہتے تھے کیونکہ ان کے بچ نکلنے اور بہادری کے ساتھ ڈاکے ڈالنے کی کہانیاں ہر بیٹھک میں عام ہوا کرتی تھی۔
تو آئیے جانتے ہیں کہ ڈاکو مان سنگھ آخر کون تھے جن سے امیتابھ بھی خوفزدہ رہتے تھے۔
مان سنگھ راجپوتوں کے راٹھور قبیلے میں پیدا ہوئے۔ وہ برطانوی عہد میں شمال مغربی صوبوں کے آگرہ ضلع میں باہ کے قریب کھیرا راٹھور گاؤں میں 1890 میں پیدا ہوئے۔
مان سنگھ کے بھائی کا نام درجن سنگھ تھا اور ان کی بھی وجہ شہرت ڈاکہ زنی تھی۔
اگرچہ ان کا گاؤں آگرہ ضلعے میں آتا ہے لیکن یہ انڈیا میں ڈاکوؤں کی پناہ گاہ سمجھے جانے والے چمبل کے علاقے میں آتا ہے۔

مان سنگھ کے گروہ میں 17 ڈاکوؤں میں سے زیادہ تر خاندان کے لوگ تھے (فائل فوٹو: ان اوور ڈیز ڈاٹ آرگ)

یہ علاقہ عہد وسطی سے ہی ڈاکوؤں کا پسندیدہ علاقہ رہا ہے۔ 13ویں صدی سے ہی وہاں کی گہری گہری گھاٹیوں اور جھاڑی والے جنگلات کی ایک بھول بھلیاں نے پولیس سے چھپنے میں ان کی مدد کی ہے۔
مان سنگھ 1938-39 سے 1955 کے درمیان سرگرم رہا جس کے خوف سے اس وقت کا ہندوستان لرزتا تھا۔ مان سنگھ چمبل کے ڈاکوؤں میں سب زیادہ خوفناک مانا جاتا ہے جس کے سر ایک ہزار سے زیادہ ڈاکوں اور ان کے گروہ کو 185 قتل کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
ان کے شکار میں 32 پولیس افسران اور اہلکار کا بھی شامل ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ مان سنگھ کے گروہ میں 17 ڈاکو تھے جن میں زیادہ تر لوگ ان کے اپنے ہی خاندان کے بھائی، بیٹے اور بھتیجے تھے۔
خاندان کے افراد کے گروہ میں ہونے کی وجہ سے ان کو غداری کا زیادہ خطرہ نہیں تھا اور چمبل کے علاقے میں انھیں چیلنج کرنے والا کوئی نہیں تھا۔
بہرحال پولیس نے اس کے خلاف اغوا سے لے کر قتل تک کے 100 سے زیادہ مقدمات درج کیے اور ان کا خوف اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ وہ اور ان کے بیٹے صوبیدار سنگھ کو 1955 میں گورکھا فوجیوں نے موجودہ مدھیہ پردیش کے ضلع بھنڈ کے کاکیکا پورہ میں گولیوں سے چھلنی نہیں کر دیا۔

ڈاکو مان سنگھ کے پاس جاسوسوں کا ایک بڑا نیٹ ورک تھا (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

کہا جاتا ہے کہ مان سنگھ کا ان کے گاؤں میں رہنے والے ایک پنڈت خاندان سے زمین کے لیے جھگڑا ہو گيا تھا جس میں ان لوگوں کے ہاتھوں دو افراد کی موت ہو گئی تھی اور وہ پولیس سے بچنے کے لیے اپنے اہل خانہ کے ساتھ فرار ہو گئے تھے اور اس طرح ایک ڈاکو کی پیدائش ہوتی ہے جو تقریباً 15 برس تک پولیس کے لیے ایک چیلنج رہا۔
مان سنگھ رابن ہڈ کی طرح تھا۔
رپورٹس کے مطابق وہ امیروں کو لوٹتا تھا اور ان کی دولت غریبوں میں تقسیم کر دیتا تھا۔ وہ غریبوں کو کبھی پریشان نہیں کرتا تھا اور خواتین کی بے عزتی برداشت نہیں کرتا تھا۔ وہ عوام میں راجہ مان سنگھ کے طور پر مقبول تھا۔ راجہ مان سنگھ اکبر کے درباریوں میں تھا اور اہم عہدے پر فائض رہے تھے۔ انہیں آج بھی آگرے کے پاس کے کئی گاؤں میں کسی دیوتا کی طرح پوجا جاتا ہے جبکہ گاؤں کھیڑا راٹھور میں ان کا مندر بھی ہے۔
لیکن ڈاکو مان سنگھ کے پاس جاسوسوں کا ایک بڑا نیٹ ورک تھا اور اس کی وجہ سے وہ انتہائی چالاکی کے ساتھ واردات انجام دیتا تھا۔
اس کے گروہ کے پاس اس وقت آٹومیٹک ہتھیار تھے جبکہ پولیس کے پاس اس قسم کی سہولیات نہیں تھیں۔ وہ اپنے گروپ کے لوگوں کی باضابطہ تربیت بھی کرتے تھے۔

پہلی بار مان سنگھ نام کی ایک فلم 1971 میں بنی تھی جس کے ہدایت کار بابو بھائی مستری تھے (فائل فوٹو:  فلم پوسٹر)

ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان پر کئی فلمیں بنائی گئی ہیں۔ ان میں حال ہی میں منوج واجپائی کی فلم سون چڑییا شامل ہے۔
لیکن پہلی بار مان سنگھ نام سے ایک فلم 1971 میں بنی تھی جس کے ہدایت کار بابو بھائی مستری تھے۔ اور ان کا کردار معروف اداکار دارا سنگھ نے نبھایا تھا۔ اس فلم  میں ان کے علاوہ نشی، شیخ مختار، جیون، شیام کمار، اور گڈی ماروتی شامل تھے۔
مان سنگھ کو ان کے انجام پر لانے کے لیے حکومت کو اس زمانے میں ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ روپے خرچ کرنے پڑے تھے۔ بہرحال ان کی موت کے بعد اگرچہ ان کا گروہ ختم ہو گیا لیکن چمبل اس کے بعد بھی ڈاکوؤں کی پناہ گاہ بنا رہا۔

شیئر: