Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی شناخت کیسے کی جاتی ہے؟

محکمہ کسٹمز کے ترجمان کے قانون کے مطابق کوئی شہری نان کسٹم پیڈ گاڑی استعمال نہیں کر سکتا (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)
کراچی میں ملک دیگر شہروں کے مقابلے میں آبادی کئی گنا زیادہ ہے اور یہ پاکستان کا معاشی ہب بھی ہے، اس لیے یہاں کی سڑکوں پر ہر لمحہ ہزاروں گاڑیاں دوڑتی نظر آتی ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر گاڑیاں قانونی طریقے سے خریدی گئی ہیں لیکن بہت سی گاڑیاں ایسی بھی ہیں جو ٹیکس ادا کیے بغیر شہر میں لائی گئیں اور ان کی نمبر پلیٹس جعلی ہیں۔
پاکستان میں بعض قبائلی علاقوں کےعلاوہ کہیں بھی نان کسٹم پیڈ گاڑی استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ملک کے بیشتر شہروں میں بااثر افراد نان کسٹم پیڈ گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں۔
محکمہ کسٹمز کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2023-2024 میں محکمے نے کارروائی کرتے ہوئے 105 نان کسٹم پیڈ گاڑیاں تحویل میں لی ہیں۔
اسی طرح سال 2022-2023 میں کسٹمز حکام نے 109 گاڑیاں برآمد کیں جو غیرقانونی طور پر شہر میں چلائی جا رہی تھیں۔
نان کسٹم پیڈ گاڑی کی ڈیوٹی ادا کر کے استعمال کی جا سکتی ہے؟
ڈپٹی کمشنر انسداد سملنگ سیل کراچی رضا نقوی نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے قانون میں یہ گنجائش نہیں ہے کہ کوئی شہری نان کسٹم پیڈ گاڑی خریدے اور بعد میں اس کی ڈیوٹی ادا کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’قانون کے مطابق اگر کوئی گاڑی ملک میں درآمد کی جا رہی ہے تو اس کے درآمد کیے جانے کے وقت اس کی ویلیو کے حساب سے جو ڈیوٹی بنتی ہے، وہ ادا کر کے ہی گاڑی کو کلیئر کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سرحدی علاقوں سے غیرقانونی طور پر گاڑی درآمد کر کے ان کی خرید و فرخت کرنا یا پھر انہیں ٹیکس میں چھوٹ دیے گئے علاقوں سے باہر استعمال کرنا غیرقانونی عمل ہے۔‘
انہوں نے نان کسٹم پیڈ گاڑیوں اور سامان کے بارے میں مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ’پاکستان کے قانون کے مطابق جو بھی سامان امپورٹ کے تقاضے پورے کیے بغیر ملک میں درآمد کیا جائے گا وہ غیر قانونی ہو گا، چاہے وہ گاڑی ہو، الیکٹرانک آئٹم ہو یا روز مرہ استعمال کی دیگر اشیا ہوں۔‘
رضا نقوی کے مطابق ’ملک میں دو طرح کی گاڑیاں عام طور پر کسٹمز حکام تحویل میں لیتے ہیں۔ ایک تو وہ گاڑیاں ہیں جن کا چیسز نمبر ٹیمپرڈ ہوتا ہے یا پنج ہوتا ہے۔ دوسرا وہ گاڑیاں جو پرانی گاڑیوں کی نمبر پلیٹ لگا کر چلائی جا رہی ہوتی ہیں۔‘
گاڑیوں کی پہنچان کیسے ہوتی ہے؟
کسٹمز انٹیلیجنس حکام کے مطابق اب ان کے پاس ایک آن لائن سافٹ ویئر موجود ہے، جس کی مدد سے وہ باآسانی کسی بھی گاڑی کی تفصیلات حاصل کر لیتے ہیں۔ اس سے قبل گاڑی کی پہچان کرنا ایک مشکل عمل تھا۔ کئی بار عملے کو مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا کیونکہ اکثر ان گاڑیوں کے استعمال کرنے والی بااثر شخصیات ہوتی ہیں اور موقعے پر مؤثر ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے وہ بچ جاتے تھے۔ لیکن اب ڈاکیومنٹس کی مکمل تفصیل لیپ ٹاپ پر موجود ہونے کی وجہ سے محکمے کے اہلکار باآسانی ان گاڑیوں کی چیکنگ کر لیتے ہیں۔  

کسٹم حکام آن لائن سافٹ ویئر کی مدد سے کسی بھی گاڑی کی تفصیلات حاصل کر لیتے ہیں (فوٹو: ویڈیو گریب)

رضا نقوی نے ایک ریڈ کا احوال کچھ یوں بیان کیا کہ  کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں ایک خفیہ ذریعے سے اطلاع موصول ہوئی کہ ایک نان کسٹمز پیڈ گاڑی کچھ وقت علاقے میں استعمال کی جا رہی ہے۔ ’ہم اپنی ٹیم کے ہمراہ دو روز تک اس گاڑی کی نگرانی کرتے رہے۔ یہ گاڑی ایک فیملی کے استعمال میں تھی۔  اس گھر کی خواتین بازار، سکول اور دیگر مقامات پر جانے کے لیے یہ گاڑی استعمال کر رہی تھیں۔ یہ ایک مشکل کام تھا کہ سڑک پر کسی خاتون کو روک کر گاڑی کی ویریفیکشن کی جاتی۔‘
کسٹم حکام نے دو روز کی ریکی کے بعد تین دن مزید گاڑی کا تعاقب کیا اور گاڑی کو چیک کرنے کے لیے اس وقت روکا جب گاڑی ڈرائیور چلا رہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ گاڑی کو روک کر جب اسے چیک کیا گیا تو گاڑی کا چیسز ٹیمپرڈ تھا۔
’ہم نے گاڑی کو اپنی تحویل میں لیا۔ اس دوران گاڑی کا ڈرائیور گاڑی چھوڑ کر فرار ہو گیا تھا۔ گاڑی کی مکمل سکینگ کی گئی تو معلوم ہوا کہ ایک پرانی گاڑی کی نمبر پلیٹ اس گاڑی پر لگا کر گاڑی استعمال کی جا رہی تھی۔ گاڑی کی نمبر پلیٹ، رنگ اور کمپنی ایک ہونے کی وجہ سے گاڑی کو آن لائن ایکسائز میں چیک کرنے پر گاڑی بالکل کلیئر تھی۔‘
ڈینٹرز، مکینک اور باڈی چینج کرنے والوں کی نگرانی
محکمہ کسٹمز کے حکام کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کی تلاش کوئی آسان کام نہیں ہے۔ شہر میں ہزاروں نہیں لاکھوں گاڑی چل رہی ہیں۔ ان گاڑیوں میں قانونی اور غیرقانونی کا تعین کرنا آسان نہیں ہے۔ محکمے کی افرادی قوت بھی اتنی نہیں ہے کہ ہر سڑک یا علاقے میں اہلکار تعینات کیے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کچھ پوائنٹس بنائے ہیں، جہاں مانیٹرنگ کا ایک مؤثر نظام قائم کیا گیا ہے۔ شہر کے وہ مقامات جو داخلی اور خارجی ہیں وہاں کیمروں کی مدد سے سخت نگرانی کر رہے ہیں کہ شہر میں داخل ہونے والی گاڑیوں کا پتا لگایا جا سکے۔
’اس کے علاوہ شہر میں گاڑیوں کی باڈی کی تبدیلی کا کام کرنے والوں کو بھی مانیٹر کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ افراد باہر سے نان کسٹم پیڈ گاڑیاں منگوا کر اپنی پرانی گاڑیوں کو اپ ڈیٹ کر لیتے ہیں۔

قانون کے مطابق تحویل میں لی گئی گاڑی عام نیلامی میں پیش کی جاتی ہے (فائل فوٹو: گاڑی ڈاٹ پی کے)

تحویل میں لی گئی گاڑیوں کا کیا ہوتا ہے؟
محکمہ کسٹمز کے ترجمان سید عرفان علی کے مطابق پاکستان کے قانون کے مطابق کوئی شہری نان کسٹم پیڈ گاڑی کو ڈیوٹی ادا کر کے اپنے استعمال میں نہیں رکھ سکتا ہے۔
قانون کے مطابق تحویل میں لی گئی گاڑی عام نیلامی میں پیش کی جائے گی۔ اس نیلامی میں گاڑی کے ماڈل اور کمپنی کے حساب سے گاڑی کی قیمت کا تعین کیا جائے گا اور نیلامی میں کوئی بھی شہری شریک ہو کر زیادہ بولی لگا کر گاڑی خرید سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے علاوہ کچھ گاڑیاں قومی اداروں کو استعمال کے لیے دی جاتی ہیں۔ یہ وہ گاڑیاں ہوتی ہیں جن کے چیسز نمبر کٹے ہوئے ہوتے ہیں۔‘
’ان دو راستوں سے ہی گاڑی محکمے سے باہر جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں کہ ان غیرقانونی گاڑیوں کو سڑک پر چلنے کی اجازت دی جائے۔‘

شیئر: