حماس کے زیرِانتظام غزہ کی وزارت صحت نے مزید کہا کہ 50 زخمیوں کو سکول سے ہسپتال لے جایا گیا۔
حماس کے پریس آفس نے بتایا کہ سکول میں تقریباً سات ہزار افراد نے پناہ لی ہے۔ حملے کے بعد لوگوں نے ملبے میں اپنے پیاروں کو تلاش کیا۔
پریس آفس کے مطابق یہ سکول اقوام متحدہ کے فلسطینیوں کے لیے امدادی ادارے الاونروا کے زیراہتمام چلایا جا رہا ہے۔ حملے میں زیادہ تر بچےِ، خواتین اور بزرگ ہلاک اور زخمی ہوئے۔
ایک خاتون سماہ ابو امشا نے بتایا کہ ’یہ چوتھی بار ہے کہ انہوں نے بغیر کسی وارننگ کے سکول کو نشانہ بنایا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ کچھ بچے کلاس میں قرآن پڑھتے ہوئے نشانہ بنے۔
حماس نے اس حملے کو فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی کی جنگ کے ایک حصے کے طور پر مجرم دشمن کی جانب سے ایک نیا قتل عام اور جرم قرار دیا ہے۔
اسرائیل نے جنگ بندی کے لیے ثالثوں کے ساتھ ملاقاتوں پر رضامندی ظاہر کی ہے لیکن اس نے جنوبی اسرائیل پر حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے بعد غزہ میں اپنی جارحیت کو جاری رکھا ہوا ہے۔
الاونروا نے کہا ہے کہ سنیچر کی صبح وسطی غزہ کے علاقے البریج پر ایک حملے میں اس کے دو کارکن مارے گئے۔
الاقصیٰ ہسپتال کے مطابق حملے میں ہلاک 9 دیگر افراد کی لاشیں سرد خانے لائی گئیں۔
الاونرا نے مزید کہا کہ جنگ کے آغاز سے اب تک اس کے 194 کارکن ہلاک ہوئے اور آدھے سے زیادہ سینٹرز اور پناہ گاہیں نشانہ بنی ہیں۔
’اس کے نتیجے میں پناہ گاہوں میں موجود کم سے کم 500 افراد ہلاک ہوئے۔‘
طبی عملے کے اراکین کے مطابق سنیچر کو نصیرات میں ایک مکان پر حملے میں تین صحافیوں سمیت 10 افراد ہلاک ہوئے۔
سول ڈیفنس کے ترجمان محمود باسل نے کہا کہ ’غزہ میں کوئی بھی مقام محفوظ نہیں۔‘
سات اکتوبر کو اسرائیل میں حماس کے حملے میں 1195 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
حماس نے اسرائیل سے شہریوں کو یرغمال بنایا تھا جن میں 116 اب بھی غزہ میں موجود ہیں اور 42 کے بارے میں اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس کے جوابی ردعمل میں غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم سے کم 38 ہزار 98 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔