Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا محمود خان اچکزئی کا مذاکراتی مشن بھی ناکامی سے دوچار ہو گیا؟

محمود اچکزئی پی ٹی آئی کو دیگر سیاسی اور حکومتی جماعتوں کے قریب لانے میں تاحال کامیاب نہیں ہو سکے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پی ٹی آئی جہاں ایک طرف مولانا فضل الرحمان کے ساتھ مشترکہ احتجاجی مہم چلانے کے لیے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے وہیں محمود خان اچکزئی کو بھی ’تحریک تحفظ آئین پاکستان‘ کے پلیٹ فارم سے بات چیت کا اختیار دے رکھا ہے اور کسی ٹھوس پیش رفت پر آگے بڑھنے کی ہامی بھی بھر چکی ہے۔
تاہم نہ صرف یہ کہ پی ٹی آئی کے مولانا فضل الرحمان سے معاملات طے نہیں ہو رہے بلکہ محمود اچکزئی بھی ایک ماہ گزرنے کے باوجود مذاکرات کی طرف کوئی نمایاں قدم نہیں بڑھا سکے۔ 
اس کے برعکس پی ٹی آئی کے اندر کئی دھڑے قائم ہو چکے ہیں اور بجائے اس کے کہ تحریک انصاف دوسری سیاسی قوتوں سے بات چیت کرے اس کے اندرونی اختلافات سیاسی منظر نامے پر زیادہ اُجاگر ہو رہے ہیں۔
تو کیا محمود اچکزئی بھی اپنی کوشش میں ناکام ہو گئے ہیں اور ایسے مذاکرات کا اہتمام نہیں کر سکے جہاں پی ٹی آئی دیگر جماعتوں کے ساتھ معنی خیز گفتگو کرکے اپنے لیے حالات بہتر کر سکے؟ 
اس سلسلے میں تحریک انصاف کی قیادت بالکل خاموش ہے اور کئی ہفتوں سے اس موضوع پر کوئی بات چیت نہیں کی گئی۔ 
اگرچہ عمران خان نے حکومت کی طرف سے مجوزہ آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں شرکت کا عندیہ دیا ہے لیکن محمود اچکزئی کو دیے گئے اختیار کے بارے میں کوئی بات نہیں کی جا رہی۔ 
اس سے یہ تاثر قائم ہو رہا ہے کہ محمود اچکزئی پی ٹی آئی کو دیگر سیاسی اور حکومتی جماعتوں کے قریب لانے میں تاحال کامیاب نہیں ہو سکے۔
اس بارے میں جب تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن سے پوچھا گیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ محمود اچکزئی نے اب تک مذاکرات کی تجویز پر کسی پیش رفت سے آگاہ نہیں کیا۔
تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سلسلے میں پی ٹی آئی نے محمود اچکزئی کو کوئی ٹاسک نہیں دیا تھا بلکہ یہ ان کی اپنی تجویز تھی کہ کچھ دیگر سیاسی جماعتوں سے بات چیت کر کے پی ٹی آئی کے اُن سے مذاکرات کے لیے کوشش کی جائے۔

ترجمان پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ’ہم مینڈیٹ چور مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے بات نہیں کریں گے‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)

رؤف حسن نے بتایا کہ پی ٹی آئی نے اُن کی یہ تجویز تسلیم کر لی تھی اور ان سے کہا تھا کہ اگر اس بارے میں کوئی ٹھوس پیش رفت ہو تو اس پر بات کی جا سکتی ہے۔
ترجمان پی ٹی آئی کے مطابق ’اس کے بعد محمود اچکزئی نے کسی پیش رفت سے آگاہ نہیں کیا اور اب گیند اُن کے کورٹ میں ہے۔‘ 
تاہم ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کے بارے میں اب بھی وہی پوزیشن ہے کہ  ’ہم مینڈیٹ چوروں یعنی مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے بات نہیں کریں گے۔‘
 مبصرین سمجھتے ہیں کہ محمود اچکزئی کے مذاکرات پر پیش رفت نہ کر سکنے کے پیچھے بھی اسی طرح کی پالیسیاں کارفرما ہیں۔ 
 سیاسی تجزیہ کار طاہر نعیم ملک کے مطابق ’ایک طرف عمران خان کا موقف واضح ہے کہ وہ کچھ لوگوں سے بات نہیں کریں گے اور وہ پارلیمان اور دیگر سیاسی اداروں کے بارے میں بھی ایک روایتی رویہ رکھتے ہیں۔‘
’دوسری جانب اس مرتبہ نواز شریف کا اپنی ہی حکومت اور پارلیمانی پارٹی سے لاتعلق ہو جانا بھی اس طرح کے سیاسی معاملات کو نتیجہ خیز نہیں بنا رہا۔‘

’عمران خان کو ریلیف دینا مقتدرہ کے اختیار میں ہے، لہٰذا کوئی بھی مذاکرات کر لے فائدہ نہیں ہوگا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان کے خیال میں کچھ دیگر سیاسی جماعتیں بھی موجودہ پارلیمانی نظام کو ’اون‘ نہیں کر رہیں جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ 
 کچھ اسی طرح کی رائے پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر رسول بخش رئیس کی بھی ہے۔  وہ کہتے ہیں کہ اس وقت جو لوگ سیاسی نظام کا حصہ ہیں اُن کے اپنے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔ 
’’ہمیں محمود اچکزئی یا کسی بھی شخصیت کے سیاسی مذاکرات کے لیے کردار سے پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ موجودہ نظام کو چلانے والے کون ہیں۔‘
 پروفیسر رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ اس نظام کا مقصد کیا ہے اور اس کو چلانے والوں کے ہاتھ میں کیا ہے؟ اس میں نواز شریف اور آصف زرداری کا کیا کردار ہے؟‘ 
’عمران خان کو رعایت دینے کا اختیار مقتدرہ کے ہاتھ میں ہے اور مقتدرہ اس وقت ان کو رعایت دینا نہیں چاہتی جس کا مطلب ہے کہ مذاکرات چاہے کوئی بھی کسی سے کر لے اور اس کا اہتمام کوئی بھی کرے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔‘ 
’انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر اس حکومت سے پی ٹی آئی بات کرے بھی تو وہ انہیں انتخابات کے نتائج قبول کرنے اور اگلے انتخابات تک کا انتظار کرنے کا کہیں گے جو پی ٹی آئی کے لیے قابل قبول نہیں ہو گا۔‘

شیئر: