Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مولانا اور کپتان ملتے ملتے رہ گئے۔۔؟ اجمل جامی کا کالم 

اسد قیصر اور مولانا فضل الرحمان نے ملاقات میں سیاسی کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ کیا۔ (فوٹو: سکرین گریب)
اسد قیصر اور خیبر پختونخوا سے پی ٹی آئی کے دیگر زعما حضرت مولانا کے ہاں تواتر سے حاضری دینے لگے تو کپتان نے پارٹی کو ہدایات جاری کر دیں کہ خبردار! آئندہ کوئی مولانا کے بارے میں منفی ریمارکس نہ دیے جائیں۔
ماضی کے دو بدترین حریفوں کے بیچ  میل ملاقاتوں سے قربتیں بڑھنے لگیں، حالیہ انتخابات میں دھاندلی پر مؤقف بھی ایک ہوا، اداروں کی مداخلت پر بھی پر فریقین کے ہاں یکسوئی آ گئی اور تو اور بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کے خلاف آپریشز کی مخالفت میں بھی دونوں جماعتوں کے بیچ ہم آہنگی دیکھنے کو ملی۔
لیکن پھر اچانک مولانا نے اعلان فرمایا کہ امریکی ایوان نمائندگان سے پاس ہوئی قرارداد پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، انہوں نے البتہ یہ سب کہتے ہوئے پاکستان کی سفارتکاری پر بھی سنجیدہ سوال اٹھائے۔
اگلے ہی روز مخصوص نشستوں کے کیس میں جے یو آئی ف کے وکیل سینیٹر کامران مرتضیٰ نے سپریم کورٹ کے روبرو فرمایا کہ ان کی جماعت کا اس معاملے میں مؤقف وہی ہے جو الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ہے۔ گویا دو اہم ترین مدعوں پر مولانا نے پی ٹی آئی کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربتوں کو یکسر ایک دو رویا لکیر سے پرے دھکیل دیا۔
ابھی اس خلیج کو پاٹنے کے لیے اسد قیصر اور دیگر ایک بار پھر سرگرم عمل تھے کہ مولانا نے کچھ عرصہ قبل اپنے ایک انٹرویو میں محترمہ جگنو محسن کے ساتھ ہوئی گفتگومیں مزید فرمایا کہ ’ہم نے اسٹیبلشمنٹ سے تلخیاں مول لیں، ہم  نہیں جھکے، ہم نے خود بھی سوچا کہ بجائے شدت کی سیاست کے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ کی زندگی گزارنے کے کیوں نہ ہم اصلاح احوال کی جانب جائیں؟
محترمہ جگنو محسن کے دلچسپ لقمے یعنی گزارا کرنے کے جواب میں مولانا نے مزید فصاحت و بلاغت سے اپنا ما فی الضمیر کچھ یوں واضح کیا؛  فرمایا، ’ایک ہے انقلاب، ایک ہی جمہوری رویہ، جمہوریت میں تدریجی اصلاحات کا تصور ہوتا ہے، یکدم سے انقلاب کا تصور نہیں ہوتا۔ ایک سٹیج سے دوسرے سٹیج میں جانے کے لیے گزارہ کرنا ہوتا ہے ٹائم دینا ہوتا ہے۔ تاکہ ہم اس وقت تک اپنے آپ کی پہچان کروا سکیں اور انہیں بھی سمجھ آئے کہ یہ کیا لوگ ہیں اور کس طرح جینا چاہتے ہیں۔ ہم نے ثابت کر دیا کہ ہر چند کہ ہمیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی لیکن ہم نے اپنی حب الوطنی پر کمپرومائز کیا نہ ہم  نے اپنے نظریات پر سمجھوتا کیا، اور آج جمیعت علما ملکی سیاست میں عوامی قوت ہے مسلکی قوت نہیں ہے۔‘

دہشتگردی کے خلاف آپریشز پر پی ٹی آئی اور جے یو آئی کا مؤقف ایک ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اور یوں ایک مقبول ترین سیاسی جماعت اور ایک دبنگ مذہبی قوت کے بیچ پریم کہانی اپنے جوبن پر پہنچے سے پہلے ہی دم توڑ گئی۔
پریم کہانی جس کے پروان چڑھتے ہی انقلاب کی نوید سنائی جا رہی تھی جس کے کرداروں میں اپوزیشن الائنس کی چھ جماعتوں کے تگڑے رہنماؤں کو امید تھی کہ انقلاب کی اس ٹرین کا انجن اگر حضرت مولانا کی جماعت بن گئی تو یہ کراچی سے پشاور تک حقیقی معنوں میں خیبر میل کی بلٹ ٹرین بن جائے گی جسے روکنا ناممکن ہو جائے گا۔
مگر ایسا نہ ہوسکا، مولانا نے الگ سے اپنے انقلاب کے لیے علیحدہ پٹری کا انتخاب کیا جو عین تہتر کے آئین کے تناظر میں بیان کیا جا رہا ہے۔ اس تناظر میں اسٹیبلشمنٹ سے مزید ٹکراؤ اور یکدم انقلاب کی نفی کی جا رہی ہے اور جمہوری رویوں سے نئے چناؤ کی مانگ کی جا رہی ہے۔ لیکن یہاں اہم ترین سوال یہ ہے کہ ان دو قوتوں کا مِلاپ معنی خیز انجام تک کیوں نہ پہنچا؟
اس سلسلے میں خاکسار کی جانکاری ہے کہ بظاہر تو مولانا پی ٹی آئی قیادت کی عدم دلچسپی اور غیر سنجیدگی پر نالاں ہیں لیکن در حقیقت بقول شخصے مولانا پس پردہ ہوئی چند ملاقاتوں کے اثر میں بھی تھے۔ یہ اثرات دو رخے تھے، یعنی معاملہ عہدوں کا یا کسی اور پرکشش آفر کا نہیں تھا۔
معاملہ ردعمل کا تھا جو مولانا اور کپتان کے مِلاپ سے سامنے آنے کا خدشہ تھا۔ شورٰی کے اجلاسوں میں کسی حد تک اس مدعے پر بین السطور روشنی بھی ڈالی گئی  اور یوں پتلی گلی سے مناسب سا انقلاب برپا کرنے کا تصور معرض وجود میں آیا۔
یہاں یہ مسئلہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ پی ٹی آئی نے معنی خیز مذاکرات کے لیے کمیٹیوں کی تشکیل میں روایتی لیت و لعل کا مظاہرہ کیا کیونکہ دستیاب قیادت ہمیشہ ٹھوس اقدامات اٹھانے سے قاصر رہی ہے۔

عمران خان نے مولانا کے خلاف بیان بازی سے پارٹی کو روکا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

خیبر پختونخوا کی سیاست اور علی امین کا حلقہ احباب بھی اس سلسلے میں ایک بڑی رکاوٹ تھی۔ مولانا صوبے کی سطح پر ایک ایسی کمیٹی کی تشکیل چاہتے تھے جس کے ذریعے سیاسی جدوجہد کے علاوہ صوبائی سیاست کے معاملات کو بھی آسان بنایا جا سکے۔ مولانا سے انگیج ہوئی قیادت میں اسد قیصر اور اخونزادہ حسین کے علاوہ دیگر زعما کے ہاں وہ سنجیدگی سرے سے ہی نہیں تھی جس کی مولانا کو تلاش تھی۔
جیل بیٹھے کپتان نے جہاں مولانا کے خلاف بیان بازی سے پارٹی کو روکا وہیں انہوں نے مشترکہ جدوجہد کے لیے بھی گرین سگنل دے رکھا تھا۔ دستیاب قیادت تاہم بروقت مولانا کے ساتھ  فطری طور پر بنتے اتحاد کو عملی جامہ نہ پہنا سکی۔ اس مِلاپ میں جیسے ہی ہلکا سا خلا آیا، شہباز سرکار اور نقوی سرکار اِن ایکشن دکھائی دیے۔ مولانا نے سرکار کے ساتھ کسی آپشن پر بھی ہاں کرنے سے انکار کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو مزید موقع دیا لیکن اس بیچ شاید تاخیر ہوچکی تھی۔
بقول ظفر اقبال،
اپنے ہی سامنے دیوار بنا بیٹھا ہوں
ہے یہ انجام اسے رستے سے ہٹا دینے کا

شیئر: