Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’قتل عام‘ جاری، حماس کا غزہ جنگ بندی مذاکرات سے دستبردار ہونے کا اعلان

غزہ کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ حملے میں کم سے کم 92 افراد ہلاک ہوئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ایک سینیئر اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی کی جانب سے ’قتل عام‘ اور جنگ بندی کے لیے اس کے رویے کی وجہ سے حماس مذاکرات سے دستبردار ہو گیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے حماس کے ایک اور اہلکار نے کہا کہ تنظیم کے عسکری رہنما محمد ضیف ’ٹھیک‘ ہیں اور اسرائیل کے جنوبی غزہ کے ایک کیمپ پر بڑے بم حملے کے باجود کام کر رہے ہیں۔
اسرائیل نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے حماس کے مطلوب رہنما کو نشانہ بنایا ہے۔
غزہ کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ اس حملے میں کم سے کم 92 افراد ہلاک ہوئے۔
سینیئر عہدیدار کے مطابق حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ نے بین الاقوامی ثالث قطر اور مصر کو مذاکرات سے دستبرداری سے متعلق آگاہ کر دیا ہے۔
غزہ میں جنگ بندی کے لیے مئی میں امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک منصوبہ تجویز کیا تھا جس پر مذاکرات ہو رہے تھے۔
اسماعیل ہنیہ کا مزید کہنا تھا کہ حماس نے معاہدے تک پہنچنے اور جارحیت کو ختم کرنے کے لیے بڑی لچک دکھائی ہے اور جب قابض حکومت جنگ بندی کے معاہدے اور قیدیوں کے لیے تبادلے کے معاہدے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گی تو وہ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔
ہنیہ نے سنیچر کو دیر گئے ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے ثالثوں اور دیگر ممالک سے رابطہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل پر حملے روکنے کے لیے دباؤ ڈالیں۔
اسرائیل نے کہا ہے کہ محمد ضیف، جسے وہ سات اکتوبر کے حملوں کے ’ماسٹر مائنڈ‘ کے طور پر سجھتا ہے، جنوبی غزہ کے المواصی کیمپ پر حملوں کا ہدف تھے۔
المواصی میں دیگر اضلاع سے ہزاروں کی تعداد میں بے گھر فلسطینی قیام پذیر ہیں۔
تاہم حماس نے اس بات کی تصدیق کیے بغیر کہ محمد ضیف کیمپ میں تھے، کہا کہ وہ زندہ اور کام کر رہے ہیں۔
جنوبی اسرائیل پر حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے نتیجے میں 1195 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 251 کو یرغمال بنایا گیا تھا جن میں 116 اب بھی غزہ میں موجود ہیں۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ 42 یرغمالی ہلاک ہو چکے ہیں۔
غزہ پر اسرائیل کی جوابی کارروائی میں کم سے کم 38 ہزار 443 افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔

شیئر: