گوگل کا پاکستان میں سمارٹ سکولوں کے قیام کا منصوبہ کیا ہے؟
گوگل کا پاکستان میں سمارٹ سکولوں کے قیام کا منصوبہ کیا ہے؟
پیر 15 جولائی 2024 7:45
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
سدرہ خرم نے پاکستان میں سمارٹ سکول جیسے اقدامات کی کامیابی کو اساتذہ کی معیاری تربیت سے مشروط قرار دیا ہے (فائل فوٹو:اے پی پی)
گوگل نے پاکستان میں 50 کے قریب سمارٹ سکول قائم کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اِن سکولوں میں اساتذہ اور طلبہ کو آن لائن تعلیم کی خصوصی تربیت دی جائے گی۔
سمارٹ سکولوں میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے استعمال، اساتذہ اور طلبہ کے درمیان بہتر روابط قائم کرنے اور اُن کی صلاحیت بڑھانے کے لیے ڈیجیٹل ٹولز کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔
اس حوالے سے وزارت تعلیم کے سیکریٹری محی الدین احمد وانی نے اُردو نیوز کو بتایا کہ گوگل سمارٹ سکول کے حوالے سے اساتذہ کی ٹریننگ کے لیے خصوصی ورک شاپس کا انعقاد کیا جائے گا۔ گوگل فار ایجوکیشن ٹیم وزارت تعلیم کے ساتھ مل کر اس منصوبے پر عمل درآمد کروائے گی۔
اس منصوبے میں ایک پبلک گوگل ریفرنس سکول کا قیام، دو ہزار نوجوانوں کو گوگل کیریئر سرٹیفکیٹس کے ذریعے ملازمت کے لیے ہنر کی تربیت اور ہوسٹنگ پر ممکنہ تعاون فراہم کیا جائے گا۔
’ابتدائی طور پر اسلام آباد ماڈل کالج فار گرلز میں ’گوگل سنٹر آف ایکسیلنس‘ قائم کیا جائے گا۔ جس میں گوگل فار ایجوکیشن کے جدید طریقوں پر اساتذہ اور طلبہ کو کلاسز دی جائیں گی۔‘
وزارت تعلیم کا کہنا ہے کہ مذکورہ سکول میں طالبات کو آن لائن تعلیم حاصل کرنے کے طریقوں سے روشناس کرایا جائے گا۔ اس کے بعد اِن سمارٹ سکولوں کا دائرہ کار اسلام آباد کے دیگر سکولوں تک بھی بڑھایا جائے گا۔
سیکریٹری وزارت تعلیم کے مطابق یہ گوگل سمارٹ سکول پاکستان میں گوگل فار ایجوکیشن ٹریننگ کا مرکز ہو گا جس کے بعد ایسے دوسرے سکول بھی کھولے جائیں گے۔
گوگل سمارٹ سکول سے اساتذہ اور طلبہ کے لیے سہولیات
گوگل سمارٹ سکول کی خصوصیات پر بات کرتے ہوئے وفاقی سیکریٹری تعلیم کا کہنا تھا کہ اساتذہ کو آن لائن طلبہ کے ساتھ بہتر روابط قائم کرنے کے لیے تربیت فراہم کی جائے گی۔ اس ضمن میں اساتذہ کو ماہرین کی جانب سے آن لائن کلاسز کا اجرا اور طلبہ کو لیکچرز دینے کے تجربات کے بارے میں بتایا جائے گا۔ آن لائن طریقہ کار کے تحت طلبہ کی دلچسپی اور اُن کے سیکھنے کے عمل کو بھی جانا جا سکے گا۔
’طلبہ کو گوگل سینٹر آف ایکسیلنس کے تحت آن لائن تعلیم کے ذرائع گوگل کلاس روم، گوگل میٹ، گوگل فارمز اور گول ڈاکس اینڈ سلائیڈز جیسی ایپس سے متعارف کروایا جائے گا۔‘
ماہرین تعلیم سمجھتے ہیں کہ گوگل سمارٹ سکول جیسے منصوبے تعلیمی شعبے کو جدید تقاضوں سے آراستہ کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ تاہم ایسے منصوبوں کا دائرہ کار بڑھا کر محروم علاقوں کو بھی اس میں شامل کیا جانا چاہیے۔ ساتھ ہی سمارٹ سکول شروع کرنے سے قبل تکنیکی پہلو، انٹرنیٹ سہولیات اور اساتذہ کی آن لائن تربیت پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
تعلیمی شعبے میں 40 سال کا تجربہ رکھنے والی مختلف جامعات سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر فوزیہ ملک کے مطابق گوگل سمارٹ سکول کے منصوبے میں ایسے افراد کو ترجیحی بنیادی طور پر شامل کرنا چاہیے جن کو تعلیم حاصل کرنے کی بنیادی سہولیات ہی میسر نہیں ہیں۔
انہوں نے گوگل سمارٹ سکول شروع کرنے کے منصوبے کو سراہتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں پہلے سے نوازے ہوئے طبقے کو ہی مزید سہولیات فراہم کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ملک میں تعلیم اور دیگر سہولیات سے تمام لوگ مستفید نہیں ہو پاتے۔
اردو نیوز سے گفتگو کے دوران ڈاکٹر فوزیہ کا مزید کہنا تھا کہ ترقی یافتہ شہروں میں طلبہ اور اساتذہ دونوں کو تعلیم کی تمام سہولیات میسر ہوتی ہیں اس لیے محرومیوں کا شکار شہروں میں جو بچے سکول جانے کی صلاحیت نہیں رکھتے یا کم عمری میں مزدوری کرتے ہیں، انہیں ایسے منصوبوں کے تحت آن لائن تعلیم حاصل کرنے کے طریقے سکھائے جائیں۔
اُنہوں نے اپنی گفتگو کے دوران کہا کہ تعلیم میں جدت لانا ہمیشہ خوش آئند ہوتا ہے مگر ساتھ میں تعلیم سے محروم بچوں کو بھی چھتری کے نیچے لانا ہو گا۔ جب دونوں اطراف ایک ساتھ ترقی ہو گی تبھی ملک میں تعلیم کے فروغ کو ممکن بنایا جا سکے گا۔
گزشتہ 29 برسوں سے مختلف مقامی اور عالمی سطح کے تعلیمی اداروں سے منسلک ماہر تعلیم سدرہ خرم کے مطابق گوگل سمارٹ سکول پروجیکٹ طلبہ اور اساتذہ کے درمیان بہتر روابط قائم کرنے اور ان کے اعتماد کو بڑھانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
تاہم سدرہ خرم نے پاکستان میں سمارٹ سکول جیسے اقدامات کی کامیابی کو اساتذہ کی معیاری تربیت سے مشروط قرار دیا ہے۔
اُنہوں نے کہا ہے کہ موجودہ دور کے طلبہ تو انفارمیشن ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوتے ہیں لیکن اساتذہ اُس طرح سے جدید تقاضوں سے آشنا نہیں ہوتے۔ اس لیے اساتذہ کی ایسی تربیت کی جائے تا کہ وہ پُراعتماد انداز میں لیکچر دے سکیں۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ سمارٹ سکولوں کے قیام سے قبل تمام تکنیکی پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ ملک کے مخلتف علاقوں میں معیاری انٹرنیٹ سروسز کی فراہمی آن لائن سکول کے اقدام کو دیرپا بنیادوں پر چلا سکتی ہے۔