گویا وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ گرتی ہوئی ساکھ کی حامل سرکار نے بالآخر تحریک انصاف سے نمٹنے کے لیے آخری حد تک جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس سلسلے میں تمام تر وہ اقدامات اٹھانے کا تہیہ کر لیا جو شاید چند ماہ پہلے تک زیرِبحث بھی نہیں تھے۔
عطا تارڑ سوموار کو ٹی وی پر جلوہ گر ہوئے، بہت ہو گیا کہہ کر پریس کانفرنس کو اہم ترین قرار دیا اور پھر بتلایا کہ پاکستان اور پی ٹی آئی اب ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ چار اہم ترین فیصلوں سے قوم کو آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے حکومت وقت کی تلملاہٹ، بے بسی اور سروائیول پلان واضح کیا۔
پلان کیا تھا؟ یعنی: پی ٹی آئی پر پابندی، عارف علوی، عمران خان اور قاسم سوری پر آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی، باہر بیٹھے حامیوں کے پاسپورٹ اور آئی ڈی کارڈز بلاک کرنے کے ساتھ ساتھ مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننے سے انکار۔
مزید پڑھیں
-
عزم استحکام مگر کس کے لیے؟ اجمل جامی کا کالمNode ID: 868166
-
مولانا اور کپتان ملتے ملتے رہ گئے۔۔؟ اجمل جامی کا کالمNode ID: 871041
جیسے ہی پریس کانفرنس ختم ہوئی تو ادھر ادھر ٹیلی فون گھمایا کہ یہ سب آج ہی کیوں؟ معلوم ہوا کہ مری میں ہونے والا لیگی اجلاس ملتوی ہی اس لیے ہوا تھا کہ اسلام آباد اور پنڈی میں اسی مدعے پر سیر حاصل پلاننگ طے ہو چکی تھی، بس سوموار کا انتظار تھا۔ عاشورہ کے بعد قومی اسمبلی کا ہنگامی اجلاس بلا کر ان تمام فیصلوں کی تائید حاصل کی جائے گی۔
ایک ذمہ دار ذریعے کے مطابق شہباز شریف خود آصف علی زرداری کو اس مدعے پر آن بورڈ کر چکے تھے۔ لیکن جب شام تک سیاسی ردعمل دیکھا تو خلا نظر آیا۔ متحدہ سے لے کر اے این پی اور جمیعت علمائے اسلام سے لے کر ایچ آر سی پی تک جیسے ادارے بھی یک زبان ہو کر تحریک انصاف پر پابندی اور دیگر منصوبوں کی کھل کر مذمت اور مخالفت کرتے دکھائی دیے۔
اس بیچ البتہ پی پی پی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کے علاوہ دیگر ذمہ دار خامشی اختیار کیے بیٹھے رہے، اکثر سے رابطہ ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ تو عاشور کی وجہ سے اپنے اپنے حلقوں میں ہیں اور قیادت سے مشورے کے بعد ہی اس مدعے پر کچھ بول پائیں گے۔ رہ گئی بات عوامی ردعمل کی تو اس کے لیے سوشل میڈیا کا کوئی بھی پلیٹ فارم ایک لٹمس ٹیسٹ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ ان فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے سرکار کو محض بڑی سرکار کی آشیر باد نہیں بلکہ سیاسی، عدالتی، عوامی اورکسی حد تک بین الاقوامی تائید بھی اگر حاصل ہوتی تو صورتحال یکسر مختلف دکھائی دیتی۔
یہاں البتہ سیاسی و غیرسیاسی سرکار فی الحال تک ان فیصلوں پر تنہا دکھائی دیتی ہے کیونکہ عدالتی محاذ پر گزرے دو تین ماہ سے جو جھلکیاں دیکھنے کو ملی ہیں، اس سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ ماضی کی نسبت موجودہ عدلیہ اس بندوبست پر اپنی حمایت کی مہر ثبت کرنے سے انکاری ہے۔ مخصوص نشستوں کا کیس ہو، خان کی عدت کیس میں رہائی ہو، صنم جاوید کے بارے میں عدالتی احکامات ہوں، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کا اٹھ کھڑا ہونا ہو یا زیریں عدالتوں کے ججز کی شکایات، ہر فورم پر یہی صورت دکھائی دے رہی ہے۔

عدالتی تائید گزرے دو ادوار میں ہوئے بندوبست کے لیے تگڑا سہارا بنی رہی۔ یہ سرکار البتہ اس تائید سے محروم دکھائی دیتی ہے اور یہی سب سے بڑی جنگ ہے۔ عوامی تائید ہے نہ عدالتی، بین الاقوامی تھپکی ہے نہ معاشی بہتری۔ ایسے میں یہ فیصلے محض مزید سیاسی تقسیم اور نفرت کو جنم دیں گے جس سے معیشت کی بحالی کے تمام پلان بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس سے حکومتی ساکھ بھی مزید مجروح ہوگی اور آہستہ آہستہ سرکار کی گرفت کرسی پر سے بھی ڈھیلی پڑ جائے گی۔ جیل میں بیٹھا کپتان البتہ اس صورتحال سے چنداں پریشان نہ ہو گا کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ یہ نظام آخری حد تک جائے۔ بدلے میں نظام کو تو رسوائی ملے گی مگر اسے بھرپور عوامی ہمدردی اور تائید کی توقع ہے۔ سرکار کے ان چار فیصلوں کو باریک بینی سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نظر ثانی کی درخواست پر ریوو کا دائرہ کار انتہائی محدود ہوتا ہے جس میں تکنیکی غلطی جیسے نکتے پر ہی کچھ بات بن سکتی ہے ۔
عارف علوی، عمران خان اور قاسم سوری پر آرٹیکل چھ کے اطلاق کے لیے البتہ پارلیمان مجاز ہے، اور یہاں سرکار ابتدائی طور پر کامیاب ہوسکتی ہے۔ معاملہ بہرحال یہاں بھی عدالتوں کے پاس ہی جائے گا جہاں سرکار کے لیے اپنے مدعے کو ثابت کرنا دشوار ہو جائے گا۔ کچھ ایسی ہی صورتحال پارٹی پر پابندی کے موضوع پر بھی ہو گی، کیونکہ الیکشن کمیشن کے ذریعے پارٹی تحلیل تو ہو جائے گی مگر اس کے پندرہ روز کے اندر اندر سرکار کو اس ضمن میں عدالتی تائید درکار ہو گی۔ وہاں پھر جن بنیادوں پر پارٹی کالعدم قرار دی جائے گی ان کو ثابت کرنا ہو گا۔ مثلاً، سائفر کا غلط استعمال جب زیربحث آئے گا تو حکومت کو خود سائفر عدالت میں پیش کرنا ہو گا۔ فارن فنڈنگ کا کیس ثابت کرنا ہوا تو پھر دیگر سیاسی جماعتوں کی فارن فنڈنگ بھی زیربحث آئے گی، دہشت گردوں کی آباد کاری پر بات ہو گی تو اس وقت کی سیاسی قیادت کے علاوہ اس وقت کی عسکری قیادت کا بھی نام آئے گا۔ یعنی، پھر داستان طویل ہوگی جسے سمیٹنا حکومت کے اختیار میں نہیں رہے گا۔
