Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب کا مفت وائی فائی صارفین کے لیے کس حد تک محفوظ ہے؟

موجودہ حکومت نے سیف سٹی نیٹ ورک کے ذریعے مفت انٹرنیٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے (فوٹو: اے پی)
پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز نے فروری میں منصب سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ وہ عوامی مقامات پر مفت وائی فائی کی سروس کو پھر سے شروع کریں گی۔ اس سے پہلے شہباز شریف کے دور حکومت میں عوامی مقامات پر مفت وائی فائی کی سہولت فراہم کی گئی تھی، تاہم بعد میں عثمان بزدار دور میں اس کو ختم کر دیا گیا تھا۔
سال 2017 میں پنجاب کے پانچ بڑے شہروں میں حکومت نے دو سو مقامات پر فری وائی فائی کی سہولت دی تھی۔ اس وقت یہ پراجیکٹ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے تحت چلایا جا رہا تھا۔ البتہ اس دفعہ صورت حال مختلف ہے۔ پی آئی ٹی بی کے پرانے پراجیکٹ کو بحال کرنے کے بجائے موجودہ حکومت نے سیف سٹی نیٹ ورک کے ذریعے مفت انٹرنیٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
دنیا بھر میں عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ پبلک مقامات پر دستیاب مفت انٹرنیٹ عام طور پر اتنا محفوظ نہیں ہوتا جیسا کہ آپ کے گھر یا دفتر کا وائی فائی ہو سکتا ہے۔ اس لیے سائبر سکیورٹی سے متعلق ادارے اور ویب سائٹس گاہے بگاہے عوام الناس کے لیے ایسی ہدایات جاری کرتے رہتے ہیں کہ وہ اگر پبلک وائی فائی استعمال کر رہے ہیں تو انہیں کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ اور اپنی پرائیوسی اور سکیورٹی کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
پبلک وائی فائی کیوں محفوظ نہیں؟
اس کی کئی وجوہات ہیں جو سائبر سکیورٹی کے ماہرین بیان کرتے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جو آپ کو انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کررہا ہے وہ آپ کا بنیادی ڈٰیٹا بھی لے رہا ہے اور اس بات کے امکانات ہر وقت موجود رہتے ہیں کہ آپ کا ڈیٹا تشہیری کمپنیوں کو فروخت کیا جائے۔ دنیا بھر میں سرکار اور پرائیویٹ کمپنیاں دونوں ہی مفت انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔ کمپنیوں کے اپنے مقاصد ہوتے ہیں تو سرکار کے اپنے۔
پاکستان میں سائبر سکیورٹی کے شعبے سے وابستہ مصنف اور ماہر اسد الرحمان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پبلک وائی فائی کے تین خطرات ہوسکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ جو آپ کو انٹرنیٹ دے رہا ہے وہ آپ کی سرویلینس بھی کر رہا ہے۔ اس کو پتا ہے کہ آپ اپنے موبائل فون پر کیا کر رہے ہیں۔ یہ پرائیویسی کے اصولوں کے خلاف ہے۔ دوسرا خطرہ یہ ہے جس وائی فائی نیٹ ورک پر آپ ہیں اسی پر کوئی ہیکر بھی ہوسکتا ہے جو آپ کی ڈیوائس تک رسائی لے کر اس میں مداخلت کر سکتا ہے۔‘
’تیسری بات جو ان سب سے زیادہ خطرناک ہے وہ یہ ہے کہ جن مقامات پر مفت انٹرنیٹ سرکار یا کسی کمپنی کی طرف سے دیا جا رہا ہوتا ہے تو وہیں کوئی ہیکر بھی اسی نام کا انٹرنیٹ اپنی ڈیوائس کے ذریعے آفر کر سکتا ہے۔ عام صارف کو بالکل بھی پتا نہیں چلے گا کہ وہ مفت وائی وہی ہے جو سرکار کا ہے یا پھر اسی نام کا کہیں اور سے آ رہا ہے۔ تو اگر وہ اس سے کنیکٹ کر لیتا ہے تو پھر اس کا کوئی حل نہیں کہ آپ کی ڈیوائس ہیکر کے رحم و کرم پر ہے۔‘
ایک اور سائبر سکیورٹی ایکسپرٹ عثمان لطیف کہتے ہیں کہ ’پبلک وائی فائی پر سکیورٹی اور پرائیویسی دونوں کا مسئلہ دنیا بھر میں ہے۔ عام طور پر ائیرپورٹس اور بس ٹرین سٹیشنوں پر لوگوں خاص طور پر سیاحوں کو ضرورت پڑتی ہے۔ اس انٹر نیٹ کو صرف مجبوری کے لیے استعمال کرنا چاہیے نہ کہ وقت گزاری کے لیے۔‘
پنجاب حکومت کا وائی فائی کتنا محفوظ؟

صہیب سلطان نے بتایا کہ یہ محفوظ ترین انٹرنیٹ ہے جو خود سرکاری کام کے لیے استعمال ہو رہا ہے (فوٹو: اسی براڈ بینڈ)

ایسے میں سوال یہ ہے کہ اگر پنجاب حکومت اپنا پرانا وائی فائی نظام بحال نہیں کر رہی تو جو نیا سیٹ اپ لگایا گیا ہے وہ کتنا محفوظ ہے؟ اس حوالے سے تکنیکی معلومات حاصل کرنے کے لیے اردو نیوز نے یہ انٹرنیٹ سروس مہیا کرنے والے ادارے پنجاب سیف سٹی اتھارٹی سے رابطہ کیا تو ڈپٹی چیف ایگزیکٹو اور مفت وائی فائی سروسز کے سربراہ صہیب سلطان نے بتایا کہ ’یہ مفت انٹرنیٹ سروس اپنی نوعیت کی منفرد سروس ہے۔ اس میں ہم نے کہیں بھی کوئی نیا سیٹ اپ نہیں لگایا ہے نا اس کے لیے کوئی ڈیوائس خریدی ہے اور زائد بجٹ لگا ہے۔‘
’ہم نے کیا یہ ہے کہ سیف سٹی کے وائرلیس نیٹ ورک جو کہ ایل ٹی ای 4.5 جی ہے، پر پہلے سے لگی ڈیوائسز جو کہ کیمروں کو بیک اپ فراہم کر رہی ہیں ان ڈیوائسز کو ہی عوام کے لیے کھول دیا ہے۔‘
انہوں ںے اپنی بات جاری رکتھے ہوئے بتایا کہ ’سیف سٹی کا نظام بیک وقت فائبر اور ایل ٹی ای سپورٹڈ ہے یعنی فائبر کو نقصان پہنچتا بھی ہے تو ہمارا نظام کام کرتا رہتا ہے۔ جہاں تک سکیورٹی کی بات ہے تو میرا خیال ہے یہ محفوظ ترین انٹرنیٹ ہے جو خود سرکاری کام کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ ہواوے کمپنی کی ڈیوائسز ہیں جن کے اپنے سکیورٹی فیچرز ہیں پھر ہمارے نیٹ ورک پر بارہ فائروالز لگی ہیں۔‘
’کسی بھی ہیکر کو سرور تک رسائی کے لیے چھ فائروالز سے گزر کر جانا ہو گا اور پھر واپسی پر بھی چھ مختلف فائروالز سے گزرنا ہو گا۔ جہاں تک ایک ہی نیٹ ورک پر کسی ہیکر کی طرف سے ڈیوائس تک رسائی ہے تو وہ ناممکن ہے۔ کیونکہ انٹرا ڈیوائس کنیکٹیوٹنی اس نیٹ ورک پر تقریباً نامکمن ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی بھی موبائل کمپنی کی ڈیٹا ڈیوائس یا ڈونگل استعمال کر رہے ہیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ انٹرنیٹ سے منسلک صارفین کا ڈیٹا کس حد تک لیا جا رہا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’صرف اور صرف میک ایڈریس اکھٹے کیے جاتے ہیں جو صرف اس لیے کہ اگر کوئی سکیورٹی کی صورت حال یا کسی بھی وجہ سے کسی کو قانونی طور ٹریس کرنا پڑے تو قانون نافظ کرنے والے اداروں کو آسانی رہے۔ کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ انٹرنیٹ کس مقصد کے استعمال کیا جا رہا ہے اور کرنے والا کوئی کرمنل تو نہیں۔‘
پبلک وائی فائی استعمال کرنے کے لیے احتیاطیں

امریکی ادارے کے مطابق فری وائی فائی استعمال کرتے ہوئے اپنی ڈیوائس (کمپیوٹر، موبائل وغیرہ) سے فائل شئیرنگ کا آپشن ڈس ایبل کر دیں (فوٹو: ٹیک جوس)

عوامی مقامات پر مفت وائی استعمال کرنے کے لیے امریکی فیڈرل ٹریڈ کمیشن نے صارفین کے لیے جو گائیڈلائنز جاری کر رکھی ہیں ان میں سب سے پہلی یہ ہے کہ ایسی جگہوں پر انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لیے ہر صورت وی پی این کا استعمال کریں۔ اس بات کا ضرور خیال کریں کہ جس نیٹ ورک سے آپ منسلک ہونے جا رہے ہیں وہ واقعی حقیقت میں وہی ہے۔
تیسری گائیڈ لائن ہے کہ اپنی ڈیوائس (کمپیوٹر، موبائل وغیرہ) سے فائل شئیرنگ کا آپشن ڈس ایبل کر دیں۔ اپنی ڈیوائسز کو سائبر اٹیک کے خلاف اپ ٹو ڈیٹ رکھیں اور سافٹ وئیراپ ڈیٹ کرتے رہیں۔ ایس ویب سائٹس کو نہ کھولیں جہاں اس بات کا خطرہ ہو کہ آپ غیر محفوظ ہیں۔ کوشش کریں سمارٹ فون سے کنیکٹ ہوں، ٹیبلٹ اور لیپ ٹاپ سے موبائل زیادہ محفوظ ہیں۔
صرف ایسی ویب سائٹس وزٹ کریں جو محفوظ ہیں۔ غیر محفوظ ویب سائٹ کھولتے ہی براؤزر میں اس کی نشاندہی ہو جاتی ہے اسے نہ کھولیں۔ اپنی ڈیوائس پر بھی فائروال لگائیں۔

شیئر: