ڈیڑھ صدی بعد چار آنے کی کورٹ فیس 500 روپے کرنے پر وکلا کی ہڑتال
ڈیڑھ صدی بعد چار آنے کی کورٹ فیس 500 روپے کرنے پر وکلا کی ہڑتال
جمعہ 19 جولائی 2024 20:08
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
کورٹ فیس جو چار آنے سے شروع ہوئی تھی وہ پچاس پیسے سے ہوتی ہوئی دو روپے تک پہنچ گئی (اے پی پی) (
صوبہ پنجاب کی جانب سے حکومت نے عدالتوں میں درخواست جمع کروانے کی کورٹ فیس میں کئی سو گنا اضافے کے بعد وکلا نے جمعے کو ہڑتال کی۔ اس ہڑتال پر جزوی طور پر عمل ہوا اور ضلعی عدالتوں میں وکلا کی بڑی کم تعداد پیش ہوئی۔
یہ ہڑتال پنجاب بار کونسل کی جانب سے کی گئی تھی۔ کورٹ فیس کیا ہے اور اس پر وکیل کیوں برہم ہیں یہ ایک دلچسپ کہانی ہے۔
وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل کامران بشیر اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’کورٹ فیس ایک معمولی سی فیس ہوتی ہے جو کسی بھی سائل کو عدالت کا دروازے کھٹکھٹانے اور انصاف لینے کے لیے اس عدالت میں اپنی درخواست کے جمع کروانی ہوتی ہے۔‘
’اگر تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو یہ فیس اتنی معمولی رہی ہے اور اس کا مقصد انصاف کی فراہمی کے عمل کو روکنا نہیں بلکہ نظام انصاف کو معتبر کرنا ہے۔ تاکہ بلاوجہ کی درخواستیں دائر نہ ہوں اور انصاف کے عمل پر آنے والے اخراجات میں کچھ حد تک کمی بھی آئے۔‘
خیال رہے کہ متحدہ ہندوستان میں انگریز دور میں عدالتی نظام قائم کیے جانے کے بعد 1870 میں کورٹ فیس ایکٹ کے نفاذ کے ذریعے اس فیس کا اطلاق کیا گیا۔ اور اس وقت مختلف کیٹیگریز کی فیس چار آنے رکھی گئی۔ وقت گزرا اور بٹوارے کے بعد انگریز کا بنایا ہوا نظام انصاف بھی اور آج بھی ڈیڑھ صدی پہلے بننے والے قوانین میں ترامیم کر کے اس کو موجودہ وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں مختلف ادوار میں کورٹ فیس جو چار آنے سے شروع ہوئی تھی وہ پچاس پیسے سے ہوتی ہوئی دو روپے تک پہنچ گئی۔ پچھلی چار دہائیوں سے یہ کورٹ فیس ایک روپیہ اور دو روپے تک پہنچ چکی تھی۔
پچھلے 30 سال سے وکالت کے شعبے سے وابستہ وکیل منیر بھٹی کہتے ہیں کہ ’ہم نے تو یہ کورٹ فیس دو روپے ہی دیکھی تھی۔ جب ہمیں نصاب میں یہ ایکٹ پڑھایا گیا تو ہمیں پتا چلا کہ اس سے پہلے یہ فیس پچاس پیسے تھی۔ اور تقسیم ہند سے پہلے تو یہ پیسوں میں تھی۔‘
موجودہ پنجاب حکومت نے صوبائی بجٹ میں فنانس بل کے ذریعے 1870 کے کورٹ فیس ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے مختلف قسم کی 16 کورٹ فیسوں میں کو بڑھاتے ہوئے پچاس روپے سے پانچ سو روپے تک کر دیا ہے۔
کامران بشیر کہتے ہیں کہ ’ہمیں تو پتا ہی اس وقت چلا جب گزٹ چھپا، حکومت نے عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈالا ہے۔ میں آپ کو سمجھاتا ہوں کہ یہ فیس ہے کیا۔ کوئی بھی درخواست دائر کرنے کے لیے اب پانچ سو روپے دینا ہوں گے اور کہانی اس کے بعد شروع ہوتی ہے۔‘
’جب بھی پہلی درخواست یا پیٹیشن دائر ہوتی ہے تو اس کے بعد کیس کی سماعت کے دوران ہر موقع پر کوئی نہ کوئی درخواست دائر کی جاتی ہے۔ مثلا اگر ایک ضمنی درخواست یہ دی جائے کہ اس مقدمے سے متعلق عدالت ریکارڈ طلب کرے تو اس نئی درخواست کی فیس پچاس روپے کر دی گئی ہے جو پہلے ایک روپیہ تھی۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’درجنوں درخواستیں مقدمے کی سماعت کے دوران دی جاتی ہیں جن کو متفرق درخواستیں کہا جاتا ہے۔ اب ہر درخواست پر سو دو سو روپے رکھ دیے ہیں اور تو اور وکالت نامہ جمع کروانے کی فیس بھی 100 روپیہ رکھ دی گئی ہے۔ جو پہلے ایک روپیہ تھی۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو سائل کی جیب نچوڑ لی گئی ہے۔ اور وکلا برادری اس کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔‘
حکومت کی جانب سے کورٹ فیس میں سب سے زیادہ اضافہ طلاق کی درخواست پر 1000 روپے رکھی ہے۔ اگر انڈیا میں صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو وہاں بھی ابھی کورٹ فیس ایکٹ 1870 ہی نافذ العمل ہے جس میں ابھی بھی چار آنے فیس ہے، تاہم کئی درخواستوں کی فیس بڑھائی گئی ہے اور وہاں زیادہ سے زیادہ فیس 25 روپے ہے۔