Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنگلہ دیش میں بدستور کرفیو، طلبہ اصلاحات کے سرکاری سرکلر کے منتظر

تمام سرکاری ملازمتوں میں 56 فیصد ریزرو شدہ ملازمتوں کی تعداد کو کم کر کے سات فیصد کر دیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)
بنگلہ دیش میں مسلسل تیسرے دن پیر کو بھی کرفیو نافذ ہے اور بڑے پیمانے پر ذرائع مواصلات بھی بند ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق شدید جھڑپوں اور 100 سے زیادہ افراد کے ہلاکت کے بعد اتوار کو بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے ملازمتوں کے متنازع کوٹے کو محدود کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
بنگلہ دیش کی یونیورسٹیوں کے طلبہ گزشتہ ایک ماہ سے سرکاری ملازمتوں میں 1971 کی جنگ آزادی کا حصہ رہنے والوں کے رشتہ داروں کے لیے مخصوص 30 فیصد کوٹے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
بنگالی روزنامہ پروتھوم ایلو کےمطابق طلبہ کے پرامن مظاہرے گزشتہ ہفتے پرتشدد احتجاج میں بدل گئے تھے جس کے بعد طلبہ اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں 174 افراد ہلاک جبکہ ہزاروں افراد زخمی ہو گئے تھے۔
صرف اتوار کے روز درجنوں ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں۔
بنگلہ دیش میں تین دن سے کرفیو نافذ ہے اور فوجی اہلکار سڑکوں پر گشت کر رہے ہیں۔ دوسری جانب جمعرات کو انٹرنیٹ سروس میں خلل آنے کے بعد اب تک ملک بھر میں انٹرنیٹ بند ہے۔
بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے معاون خصوصی بپلیپ بروا نے عرب نیوز و بتایا کہ ’آج ملک میں صورت حال ٹھیک ہے، صرف ڈھاکا، نرائن گنج اور نرسنگدی میں اکا دُکا واقعات پیش آئے ہیں۔‘
انہوں نے کہ کہا کہ ’ہمیں امید ہے کہ اگلے 48 گھنٹوں میں صورت حال بہت دکھائی دے گی اور ملک کے معمول کے کام چل پڑیں گے۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ آج رات سے براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروسز بحال کر دی جائیں گی۔‘
’جیسے ہی ملک کے حالات معمول پر آئیں گے، تو کرفیو کا دورانیہ بھی کم کر دیا جائے گا۔‘

طلبہ اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں 174 افراد ہلاک جبکہ ہزاروں افراد زخمی ہو گئے تھے (فائل فوٹو:  اے ایف پی)

اتوار کو بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم کے حوالے سے ہائی کورٹ کا فیصلہ ’غیرقانونی‘ قرار دیتے ہوئے 93 فیصد بھرتیاں میرٹ کی بنیاد پر کرنے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے سے تمام سرکاری ملازمتوں میں 56 فیصد ریزرو شدہ ملازمتوں کی تعداد کو کم کر کے سات فیصد کر دیا گیا، جن میں سے زیادہ تر اب بھی بنگلہ دیش کی پاکستان کے خلاف 1971 کی آزادی کی جنگ کے ’آزادی کے جنگجوؤں‘ کے بچوں اور پوتے پوتیوں کے لیے مختص کی جائیں گی۔
اگرچہ یہ فیصلہ متنازع ’فریڈم فائٹر‘ کے زمرے میں کافی حد تک کمی  کرتا ہے لیکن یہ مظاہرین کے مطالبات کو مکمل طور تسلیم کرنے میں ناکام رہا۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی نے پرتشدد مظاہروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے طلبہ انتشار اور تشدد کے ذمہ دار نہیں بلکہ یہ حزب اختلاف کی جماعتوں کا کیا دھرا ہے کہ انہوں نے طلبہ کی تحریک کو ہائی جیک کر لیا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’عدالت کی جانب سے طلبہ کے مطالبات منظور کر دیے گئے ہیں اور حکومت سرکاری ملازمتوں کے نظام سے متعلق منگل کو ایک سرکلر بھی جاری کر دے گی۔‘

 کچھ مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک مطمئن نہیں ہوں گے جب تک حسینہ واجد کی حکومت ختم نہیں ہو جاتی (فوٹو: اے ایف پی)

مظاہروں کا انتظام کرنے والے مرکزی گروپ ’سٹوڈنٹس اگینسٹ ڈسکریمینیشن‘ کے ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم اس وقت تک اپنا احتجاج ختم نہیں کریں گے جب تک حکومت ہمارے مطالبات ماننے کا کوئی حکم جاری نہیں کرتی۔‘
76 سالہ حسینہ واجد 2009 سے ملک پر حکمران ہیں اور جنوری میں اپنا مسلسل چوتھا الیکشن بغیر حقیقی اپوزیشن کے جیتا تھا۔
 کچھ مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک مطمئن نہیں ہوں گے جب تک حسینہ واجد کی حکومت ختم نہیں ہو جاتی۔
حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں کو منظم کرنے والے ایک طالب علم سرجیس عالم نے عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جب سے کرفیو لگا ہے، ہم اب باہر سڑکوں پر نہیں ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس وقت ہم کوٹہ سسٹم کے بارے میں حکومتی سرکلر کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہم ہر سطح کی سرکاری ملازمتوں میں اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ ہمارے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔‘
’ہم سرکاری سرکلر دیکھنے کے بعد فیصلہ کریں گے کہ آیا حکومت نے ہمارے مطالبات تسلیم کیے یا نہیں۔‘

شیئر: