Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نور مقدم کے لرزہ خیز قتل کے تین سال، والدین مجرم کی پھانسی کے منتظر

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملزم کی سزائے موت کو ایک کے بجائے دو بار کر دیا (فوٹو اے ایف پی)
یہ 20 جولائی 2021 کی گرم شام تھی، لوگ اگلے دن عیدالاضحی کی تیاریوں میں مگن تھے۔ کورونا کی پابندیوں کے باعث نقل و حمل محدود تھی۔ ایسے میں اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں پاکستان کے سابق سفیر شوکت علی مقدم کی بیٹی نور مقدم اپنے دوست ظاہر جعفر کے گھر موجود تھی، جسے بے دردی سے قتل کرتے ہوئے سر تن سے جدا کر دیا گیا تھا، اور قاتل کوئی اور نہیں بلکہ اس کا دوست بلکہ فیملی فرینڈ ظاہر جعفر ہی تھا۔
اس سے ایک روز قبل سابق سفیر شوکت مقدم بھی اپنی اہلیہ کے ہمراہ عید سے دو روز قبل تیاریوں میں مصروف تھے اور اسی سلسلے میں وہ اسلام آباد اپنی رہائش گاہ سے خریداری کے لیے مارکیٹ روانہ ہوئے۔ شام کو گھر لوٹنے پر انہیں معلوم ہوا کہ ان کی 28 سالہ بیٹی نور مقدم گھر میں موجود نہیں ہیں۔ نور کے ساتھ موبائل پر رابطہ نہ ہونے کے بعد انہوں نے بیٹی کے دوستوں سے رابطہ کیا اور نور مقدم کی تلاش شروع کر دی۔
20 جولائی کی صبح ظاہر جعفر نے نور مقدم کے والدین کو کال پر بتایا کہ وہ ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ 
لیکن اس روز نور کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا وہ کئی بار عدالتی کارروائی کے دوران وکلا، پولیس اور گواہان کی زبانی سننے کو ملا اور میڈیا پر رپورٹ ہوا۔ ظاہر جعفر نے نور مقدم کو ایک کمرے میں بند کرکے نہ صرف اسے قتل کیا بلکہ اس کا سرتن سے جدا کر دیا۔ یہ منظر پولیس کے علاوہ ان کے والد نے اپنی آنکھوں سے دیکھا جس کے باعث وہ آج تک صدمے سے باہر نہیں آسکے۔
20 جولائی 2021 کو رات 10 بجے نور مقدم کے والد شوکت مقدم کو پولیس کی جانب سے اطلاع دی گئی کہ ان کی بیٹی کا قتل ہو گیا ہے، وہ فوری تھانہ کوہسار پہنچیں۔ جہاں سے پولیس ان کو لے کر اسلام آباد کے ایف سیون فور میں ملک کے معروف بزنس مین ذاکر جعفر کے گھر لے گئی، جہاں نور مقدم کی سر کٹی ہوئی لاش کی شناخت کی گئی۔
پولیس نے موقع سے ہی ذاکر جعفر کے بیٹے ظاہر جعفر کو آلۂ قتل سمیت گرفتار کر لیا تھا۔
قاتل نورمقدم کو قتل کرنے سے پہلے اور بعد میں اپنے والدین سے رابطے میں رہا جنھوں نے اپنے تھیراپی سینٹر کے ملازمین کے ذریعے اسے پکڑنے اور اس واقعے کو چھپانے کی کوشش بھی کی۔
نورمقدم کے قتل کی ایف آئی آر درج ہوئی اور پولیس نے ملزم کے علاوہ اس کے والدین، گھریلو ملازمین اور تھیراپی سینیٹر کے ملازمین کو گرفتار کر لیا۔

پولیس تفتیش میں کیا انکشافات ہوئے؟

جولائی 2021 میں شروع ہونے والے مقدمے میں ڈیڑھ ماہ بعد پولیس نے تفتیش مکمل کرتے ہوئے عدالت میں ضمنی چالان جمع کروایا۔

نور مقدم نے ملزم ظاہر جعفر کے گھر سے بھاگنے کی کوشش کی تاہم ملزم انہیں پکڑ کر دوبارہ زبردستی اندر لے گیا (فوٹو: سی این این)

اس چالان کے مطابق ’ملزم نے والد کو واقعہ کا بتایا تو انہوں نے کہا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں، ہمارے بندے آ کر تمہیں وہاں سے نکال دیں گے۔‘
ضمنی چالان کے ساتھ ڈی این اے رپورٹ بھی منسلک ہے جس میں مقتولہ کے ریپ کی تصدیق کی گئی ہے۔
پولیس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’ملزم کے والد اگر پولیس کو بروقت اطلاع دیتے تو مقتولہ کی جان بچائی جا سکتی تھی۔ ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر نے جرم چھپانے میں اپنے بیٹے کی مدد کی ہے۔‘
چالان میں تھیراپی ورکس کے ورکرز کے خلاف بھی بیان درج کیا گیا ہے۔
بیان کے مطابق ’ملزم نے پولیس کو اپنے بیان میں بتایا کہ تھیراپی ورکرز کے ملازمین کے ساتھ جھگڑا غلط فہمی کے نتیجے میں ہوا ہے اور پولیس کے پہنچنے سے قبل تھیراپی ورکرز نے ملزم کے ساتھ مل کر شواہد چھپانے کی کوشش کی۔ جبکہ زخمی تھیراپی ورکر نے وقوعہ کا اندراج نہیں کروایا اور ہسپتال میں پولیس کو ٹریفک حادثے کا بتایا۔‘
ضمنی چالان میں پولیس نے جائے وقوعہ پر موجود گھریلو ملازمین کو بھی جرم میں شراکت دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’مقتولہ نے گھر کے ٹیرس سے چھلانگ لگا کر بھاگنے کی کوشش کی لیکن ملازمین نے انہیں گھر سے باہر جانے نہیں دیا اور گھر کا دروازہ بند کیے رکھا۔ اگر چوکیدار گھر کا دروازہ کھولنے کی اجازت دیتے تو مقتولہ گھر سے بھاگنے میں کامیاب ہو سکتی تھیں۔‘

20 جولائی کے دردناک مناظر، کیمرے کی آنکھ نے کیا دیکھا؟

ٹرائل کے دوران جائے وقوعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا ٹرانسکرپٹ بھی عدالت میں جمع کروایا گیا۔ 13 نومبر کو سامنے آنے والی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ’نور مقدم نے ملزم ظاہر جعفر کے گھر سے بھاگنے کی کوشش کی تاہم ملزم انہیں پکڑ کر دوبارہ زبردستی اندر لے گیا۔‘

پولیس نے موقع سے ہی ذاکر جعفر کے بیٹے ظاہر جعفر کو آلۂ قتل سمیت گرفتار کر لیا تھا (فوٹو اے ایف پی)

’نور مقدم ملزم کے گھر سے باہر جانے کے لیے گیٹ پر آتی ہیں تاہم وہ گیٹ سے باہر جانے میں کامیاب نہیں ہو پاتیں اور سکیورٹی گارڈ کے کیبن میں چھپ جاتی ہیں۔‘
سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جاتا ہے کہ 19 جولائی کی رات دو بج کر 39 منٹ پر ظاہر جعفر اور نور مقدم بڑے بیگ لے کر گھر کے مرکزی گیٹ سے باہر نکلتے ہیں، اور دو بج کر 40 منٹ پر باہر کھڑی ٹیکسی میں سامان رکھ کر دوبارہ واپس گھر کے اندر داخل ہوتے نظر آتے ہیں۔ 
’رات دو بج کر 41 منٹ پر نور مقدم انتہائی گھبراہٹ اور خوف کی حالت میں ننگے پاﺅں اس گھر سے گیٹ کی طرف بھاگتی نظر آتی ہیں جبکہ ظاہر جعفر اندر سے تیزی سے گیٹ کی طرف آتا ہے اور نور مقدم کو دبوچ لیتا ہے۔‘
’اس پر نور مقدم ہاتھ جوڑ کر منت سماجت کرتی نظر آتی ہیں جس کی پروا نہ کرتے ہوئے ظاہر جعفر نور مقدم کو زبردستی کھینچ کر گھر کے اندر لے جاتا ہے۔‘
رات دو بج کر 46 منٹ پر ظاہر جعفر اور نور مقدم گھر سے نکل کر مرکزی گیٹ پر آتے ہیں اور گیٹ سے باہر گلی میں کھڑی ٹیکسی میں دونوں کو بیٹھ کر جاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ 
رات دو بج کر 52 منٹ پر ظاہر جعفر اور نور مقدم اپنے بیگ لے کر اس گھر کے مرکزی گیٹ سے داخل ہو کر اندر گھر میں جاتے نظر آتے ہیں۔ اگلے روز 20 جولائی کو شام سات بج کر 12 منٹ پر ’نور مقدم فرسٹ فلور سے چھلانگ لگا کر گراونڈ فلور کی گیلری کے ساتھ لگے جنگلے پر گرتی نظر آتی ہیں۔‘
’وہ لڑکھڑاتی ہوئی مرکزی گیٹ کے پاس آتی ہیں اور باہر جانے کی کوشش کرتی ہیں۔ گیٹ پر موجود چوکیدار انہیں باہر نہیں جانے دیتا اور وہ گیٹ کو بند کر دیتا ہے۔‘

عدالت نے 24 فروری 2022 کو ظاہر جعفر کو تعزیرات پاکستان دفعہ 302 کے تحت سزائے موت سنائی تھی (فوٹو پکسابے)

’اسی دوران ظاہر جعفر گھر کے فرسٹ فلور کے ٹیرس سے چھلانگ لگا کر گراؤنڈ فلور پر آ جاتا ہے اور دوڑ کر گیٹ کے قریب گارڈ کے کیبن میں چھپی نور مقدم کو کھینچ کر باہر نکالتا ہے اور ان کے ہاتھ سے موبائل فون چھینتا اور گھر کے اندر زبردستی کھینچ کر لے جاتا نظر آتا ہے۔‘

تیز تر سماعت اور مقدمے کا فیصلہ

اگرچہ پولیس نے ملزم کو قتل کی اطلاع ملنے کے وقت یعنی 20 جولائی کو ہی جائے واردات سے گرفتار کر لیا تھا لیکن ایف آئی آر کے اندراج، دیگر گرفتاریوں، تفتیش اور چلان پیش ہونے میں دو ماہ لگ گئے۔ اکتوبر 2021 میں باضاطبہ ٹرائل شروع ہوا جو 22 فروری 2022 کو مکمل ہوا اور عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا۔
اس دوران 25 سماعتیں، 19 گواہان کی پیشی ہوئی، 4 ماہ 8 دن میں قاتل ظاہر جعفر کوسزائے موت اور قید کی سز اسنا دی گئی۔
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے 24 فروری، 2022 کو ظاہر جعفر کو تعزیرات پاکستان دفعہ 302 کے تحت سزائے موت سنائی تھی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر اور والدہ عصمت آدم جی کو بری کر دیا تھا جبکہ مالی جان محمد اور چوکیدار افتخار کو 10، 10 سال کی قید سنائی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملزم کی سزائے موت کو ایک کے بجائے دو بار کر دیا۔
ظاہر جعفر اور شریک مجرمان نے ٹرائل کورٹ سے سنائی گئی سزاؤں کو مارچ 2022 کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سات ماہ تک زیرسماعت رہنے کے بعد چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان پر مشتمل بینچ نے 21 دسمبر 2022 کو فیصلہ محفوظ کیا۔

سزائے موت کے فیصلے کے خلاف مجرمان نے سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے (فوٹو اے ایف پی)

13 مارچ 2023 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کے مرکزی مجرم ظاہر جعفر کو ٹرائل کورٹ کی طرف سے سنائی گئی سزائے موت کا حکم برقرار رکھتے ہوئے ظاہر جعفر کی 25 سال قید کی سزا کو بھی سزائے موت میں بدل دیا۔ یوں اس کی سزائے ایک کے بجائے دو دفعہ کر دی گئی۔
اس فیصلے کے خلاف مجرمان نے سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے تاہم ایک سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود اس مقدمے کی سماعت نہیں ہوسکی۔

نور مقدم کے قتل کے تین سال، والدین پر کیا گزری؟

نور مقدم کے قتل سے ان کے گھر کی خوشیاں تو جیسے ختم ہی ہو گئی ہیں، عید ہو یا کوئی تہوار ان کے گھر اور دوستوں میں اس کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے والد نے نہ صرف اپنی بیٹی کا مقدمہ لڑا اور بے پناہ دباو اور قاتل کے خاندان کے ساتھ پرانے مراسم ہونے کے باوجود ان کی جانب سے صلح کی تمام کوششوں کو ناکام بنایا اور کسی قسم کے سمجھوتے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔
شوکت علی مقدم تین سال سے عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں اور ان کا مقصد صرف ظاہر جعفر کو پھانسی لگوانا ہی نہیں بلکہ وہ نورمقدم جیسی لاکھوں بیٹیوں کے دلوں سے خوف ختم کرنے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔
اپنی بیٹی کی تیسری برسی کے موقع پر اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یہ تین سال کسی پہاڑ سے کم نہیں تھے۔ اس دوران بہت سی مشکلات آئیں۔ مقدمات کے لیے صبح سویرے اٹھ کر کچہری کے دھکے کھانا آسان نہیں تھا۔ اس کچہری میں بیٹھنا تو دور کھڑے ہونے کی جگہ بھی نہیں ملتی تھی لیکن طویل جدوجہد کے بعد انصاف ہوا۔ اگرچہ عدالت نے قاتل کے والدین اور تھیراپی ورکرز کو بری کیا لیکن ہم پھر بھی کہتے ہیں دو سو فیصد شفاف ٹرائل ہوا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’گھر پر ہر لمحہ نور کی کمی محسوس کی جاتی ہے اور اس کی والدہ اب بھی اس کے غم میں نڈھال رہتی ہے۔ نور کے دوستوں نے ہمارا بہت ساتھ دیا ہے اور ہر موقع پر وہ ہمارا سہارا بنے ہیں اور اب بھی وہ اس کاز میں ہمارے ساتھ ہیں کہ بچیوں کے مستقبل کو محفوظ بنانا ہے اور انھیں درندوں کی درندگی سے بچانا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ اگرچہ ٹرائل شفاف ہوا ہے لیکن اس میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ قانون اگرچہ شفاف ٹرائل کی بات کرتا ہے لیکن اگر اس میں دس سال گزر جائیں تو ایسی شفافیت کا پھر کیا کرنا ہے جب ملزم اور مدعی دونوں ہی اس دنیا سے جا چکے ہوں۔‘

نور مقدم قتل جیسے واقعات روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے؟

جب نور مقدم کا قتل ہوا اس وقت ملک میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی اور وزیراعظم عمران خان نے اس قتل کا نوٹس لیتے ہوئے اس مقدمے کو مثال بنانے کی ہدایت کی تھی۔ اس کے ساتھ ہی حکومتی سطح پر ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔

شوکت علی مقدم نے کہا کہ ’نور مقدم قتل کیس خالصتاً عوامی مفاد کا کیس ہے (فوٹو اے ایف پی)

اس سلسلے میں اس وقت اور بعد کی حکومتوں کی جانب سے اعلانات اور بیانات تو سامنے آتے رہے لیکن عملی طور پر کچھ نہ کیا جا سکا۔ نور مقدم کے بعد اسلام آباد میں سارہ انعام کا قتل بھی کم و بیش اسی طریقہ سے کیا گیا جس میں فرق صرف یہ تھا کہ قاتل گھر سے باہر کانہیں بلکہ اس کا اپنا شوہر تھا۔
اس حوالے سے نور مقدم کے والد شوکت علی مقدم کا کہنا ہے کہ ’حکومتی سطح پر کسی بھی وزارت یا ادارے کی جانب سے کیا اقدامات کیے گئے ہیں یا قانون سازی کی گئی ہے ہمیں اس حوالے سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ صنفی بنیادوں پر ہونے والے جرائم کے لیے اگرچہ اس ملک میں پہلے ہی ٹریبونل اور قوانین موجود ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ ہماری جدوجہد یہی ہے کہ ان قوانین پر عملدرآمد اور تیزی سے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ اس ملک کی بچیوں اور خواتین کو محفوظ بنایا جا سکے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمارے ملک میں بہت سے مقامات، کالجوں، یونیورسٹیوں، دفاتر، کاروباری اداروں میں مرد و خواتین ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔ ان کے گھریلو تعلقات بھی ہوتے ہیں لیکن ان تعلقات کی آڑ میں اگر بچیاں قتل ہوتی رہیں تو پھر ان کے دلوں سے خوف کیسے ختم ہوگا۔ نور مقدم کے قاتل کو پھانسی کے لیے لوگ ہمیں فون کرتے ہیں کہ کوشش کرکے جلدی فیصلہ کروائیں تاکہ ان کی بچیوں کے دلوں میں بیٹھا خوف ختم ہو۔‘
شوکت علی مقدم نے کہا کہ ’نور مقدم قتل کیس خالصتاً عوامی مفاد کا کیس ہے اور اس طرح کے مقدمے پر مجموعی طور پر چھ ماہ سے زیادہ عرصہ نہیں لگنا چاہیے، لیکن تین سال کا عرصہ گز چکا ہے بالخصوص سپریم کورٹ میں ایک سال سے کیس پرا ہوا ہے لیکن اس کی سماعت ہی نہیں ہوسکی۔ پاکستانی خواتین میں تحفظ کا احساس اجاگر کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ بچیوں کو یرغمال بنا کر قتل کرنے والے درندوں کو عبرت کا نشانہ بنائیں اور یہ کام جلد از جلد ہونا چاہیے۔‘

شیئر: