Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی کے ساحل پر نہانے والوں کو سندھ پولیس کیوں گرفتار کر رہی ہے؟

پولیس نے سمندر میں نہانے پر عائد پابندی کی خلاف ورزی کرنے والے 23 افراد کو گرفتار کیا ہے (فوٹو: اردو نیوز)
کراچی کے تمام ساحل عوام کے لیے بند کر دیے گئے ہیں۔ حکومت سندھ کے مطابق دفعہ 144 کے نفاذ کے بعد سمندر میں نہانے پر پابندی عائد ہے اور خلاف ورزی کرنے پر گرفتاری عمل میں لائی جائے گی۔
یہ فیصلہ ان دنوں سمندر میں تیز ہواؤں سے بننے والی اونچی لہروں کی وجہ سے کیا گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق ’موسم گرما میں سمندر کا رف ہونا معمول کی بات ہے، لیکن کچھ دنوں سے سمندر میں تیز ہواؤں کی وجہ سے لہروں میں بھی تیزی دیکھی جارہی ہیں جو خطرناک ہیں اور چھوٹی سی غلطی سے ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔‘
ریسکیو اداروں کے مطابق رواں سال اب تک 63 افراد ڈوب کر ہلاک ہوئے ہیں، جن میں اکثریت سمندر میں نہاتے ہوئے ڈوبنے والوں کی ہیں۔
ورلڈ وائڈ فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) پاکستان کے ٹیکنیکل ایڈوائزر معظم خان کے مطابق ’دنیا بھر کے سمندروں میں ایک قدرتی نظام کے تحت پانی کا اترنا اور چڑھنا معمول کی بات ہے۔ موسم سرما میں پانی کا بہاؤ کم ہوتا ہے اور گرمی کے موسم میں لہریں تیز ہوتی ہیں۔‘
 انہوں نے بتایا کہ ’عام طور پر پاکستان کے سمندروں میں مہینے میں دو بار پانی بڑھتا اور کم ہوتا ہے، اسے ہائی ٹائیڈ ( مقامی زبان میں جوار) اور لو ٹائیڈ (مقامی زبان میں بھاٹا) کہا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’چاند اور سورج کے سٹریٹ لائن ہونے پر پانی کم زیادہ ہوتا ہے، چاند کی یکم اور 14 تاریخ کو پانی تیز ہونا شروع ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ کم ہوتا جاتا ہے۔‘
ہائی ٹائیڈ (جوار) کیا ہے؟
چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز کے مطابق ’سمندر میں چلنے والی تیز ہواؤں کے نتیجے میں بننے والی اونچی لہروں کو ہائی ٹائیڈز کہا جاتا ہے۔ ان لہروں کے بننے سے سمندر بہت زیادہ رف ہو جاتا ہے اور اپنی جگہ سے آگے بڑھ جاتا ہے۔ یہ لہریں بہت اونچی اور تیز ہوتی ہیں، ان میں ڈوبنے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں، جس کے باعث مون سون کے موسم میں سمندر کے پانی میں نہانے سے منع کیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا ’عام دنوں میں تو رات میں سمندر کا پانی چڑھتا ہی ہے، جو چاند کی کشش ثقل کے باعث ہوتا ہے، لیکن جولائی اور اگست میں سمندر کا بپھرنا مون سون ہواؤں کے باعث ہوتا ہے۔‘
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں منوڑہ سے شروع ہونے والی ساحلی پٹی نتھیاگلی پوائنٹ تک پھیلی ہوئی ہے جن میں سینڈزپٹ، ککا ولیج، سونہرا بیچ، فرنچ بیچ، نیلم پوائنٹ، پیرا ڈائز پوائنٹ اور کچھوؤں کا کنارہ یعنی ٹرٹل بیچ کے ساحل شامل ہیں۔
اس کے علاوہ کراچی سے متصل سی ویو، کلفٹن، ابراھیم حیدری اور رشین بیچ بھی ایسے ساحل ہیں جہاں عوام سیر و تفریح کے لیے جاتے ہیں۔
ان دنوں ان تمام ساحلوں پر سمندر رف ہے اور حکومت نے شہریوں کو ان مقامات پر جانے سے روک دیا ہے۔
ان ساحلوں سے متصل آبادیوں میں کئی گوٹھ آباد ہیں، جن میں عبدالرحمان گوٹھ، لاک بکھر، شنگھار گوٹھ، رمضان گوٹھ، محب علی گوٹھ، فقیر محمد گوٹھ اور لشکری گوٹھ سمیت دیگر گوٹھ شامل ہیں۔
ان گوٹھوں میں رہنے والوں کی اکثریت کے ذریعہ معاش کا تعلق سمندر سے جڑا ہے۔ ان میں کئی ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ کچھ افراد سمندر کنارے آنے والوں کو سہولیات فراہم کرکے اپنی روزی کماتے ہیں تو کچھ سمندر میں نہانے والوں کی حفاظت پر مامور ہیں۔
مقامی انتظامیہ، ریسکیو اداروں اور غیرسرکاری تنظیموں کی جانب سے سمندر میں نہانے والوں پر نظر رکھنے کے لیے کچھ لائف گارڈز تعینات ضرور ہیں، لیکن سینکڑوں کلومیٹر پر پھیلی ساحلی پٹی پر آنے والے لاکھوں افراد پر نظر رکھنے کے لیے ان لائف گارڈز کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

جولائی اور اگست میں سمندر کا بپھرنا مون سون ہواؤں کے باعث ہوتا ہے (فوٹو: اردو نیوز)

فلاحی ادارے ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق ’رواں ماہ اب تک ایک درجن سے زیادہ شہری سمندر کی لہروں کی نذر ہوگئے ہیں، ان میں کچھ افراد ہاکس بے، اور دیگر سی ویو سمیت دیگر ساحلوں پر چلنے والی تیز لہروں میں بہہ کر اپنی جان کی بازی ہارے ہیں۔‘  
کراچی ککا ویلج کے رہائشی حاجی غلام محمد جاموٹ گذشتہ 60 برسوں سے سمندر کنارے آباد گوٹھ میں رہائش پذیر ہیں۔
انہوں نے اپنی پوری زندگی سمندری لہروں سے لڑتے لڑتے گزاری ہے۔ وہ اپنے عہد جوانی میں ماہی گیری کیا کرتے تھے اور کچھ برسوں سے ایک رضاکار کے طور پر سمندر میں نہانے والوں کی حفاظت کی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
غلام محمد جاموٹ کا کہنا تھا کہ ’سمندر میں سیر و تفریح کے لیے آنے والے اکثر نوجوان سمندر کو چلینج کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کی تیز لہروں سے بچنے کے بجائے اس میں کود کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ بہت خطرناک عمل ہے۔ ایک لمحے میں لہر اچھی تیراکی جاننے والے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ایسا ہی کچھ ایک مہینے قبل ہوا جب سمندر میں نہاتے ہوئے ایک ہی خاندان کے 5 افراد ڈوب گئے۔ مقامی لوگوں نے ان نوجوانوں کو روکنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ تیز لہروں میں آگے سے آگے بڑھتے رہے اور بالآخر ڈوب گئے۔‘

ریسکیو اداروں کے مطابق رواں سال اب تک 63 افراد ڈوب کر ہلاک ہوئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

سمندر میں نہانے والوں کو گرفتار کر رہے ہیں: پولیس
ایس ایس اپی کیماڑی کیپٹن (ر) فیضان علی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’گذشتہ دو دنوں میں پولیس نے سمندر میں نہانے پر عائد پابندی کی خلاف ورزی کرنے والے 23 افراد کو گرفتار کیا ہے جن کے خلاف دفعہ 188 کے تحت مقدمات درج کیے جارہے ہیں۔‘
ایس ایس پی کیماڑی نے مزید بتایا کہ ’ساحلی پٹی پر پولیس نے جگہ جگہ ناکے لگائے ہوئے ہیں، شہر سے سیر و تفریح کے لیے آنے والوں کو سمندر میں نہانے سے روکنے کے لیے ہر ممکن اقدمات کررہے ہیں۔ پولیس کی اضافی نفری ساحلی کناروں پر تعینات کی گئی ہے تاکہ سمندر کنارے آباد علاقوں میں رہنے والوں کو بھی سمندر میں جانے سے روکا جائے۔‘

شیئر: