فاریکس ٹریڈنگ کا ’جھانسہ‘، کراچی کے نوجوان قرض کی دلدل میں دھنسنے لگے
فاریکس ٹریڈنگ کا ’جھانسہ‘، کراچی کے نوجوان قرض کی دلدل میں دھنسنے لگے
منگل 9 جولائی 2024 9:15
زین علی -اردو نیوز، کراچی
آن لائن ٹریڈنگ کے نام پر نوجوانوں کو قرض کی دلدل میں پھنسایا جا رہا ہے۔ (فوٹو: انسپلیش)
پاکستان کے شہر کراچی میں نوجوانوں کو جلد از جلد کروڑ پتی بننے کا خواب دکھا کر جال میں پھنسایا جا رہا ہے اور آئے روز نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد فاریکس ٹریڈنگ کے جھانسے میں آ کر قرض کی دلدل میں دھنستی چلی جاری رہی ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے مطابق حالیہ دنوں میں ایسے متعدد کیسز رپورٹ ہوئے جن میں والدین نے کہا کہ ان کے بچوں کو آن لائن کاروبار کا جھانسہ دے کر پھنسایا گیا اور اب کمپنیاں نقصان کا الزام ان کے بچوں پر لگا کر انہیں بلیک میل کر رہی ہیں۔
والدین کے مطابق متعلقہ کمپنیاں نقصان کی رقم کی ادائیگی کا مطالبہ نوجوانوں سے کر رہی ہیں۔
کراچی کے علاقے بفرزون کے رہائشی محمد قاسم (فرضی نام) نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ بہت زیادہ پریشان ہیں کیونکہ ان کے بیٹے کے دو چیک باؤنس ہو گئے ہیں اور اب اس کے خلاف مقدمہ درج ہونے جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا بیٹا محمد جنید ایک نجی کمپنی کے شعبہ کوالٹی کنٹرول میں ملازمت کرتا ہے او اس کے تین بچے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل محمد جنید (فرضی نام) کو کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس میں ایک آئی ٹی کمپنی میں ملازمت ملی تھی۔
’اردو یونیورسٹی سے بی ایس مکمل کرنے کے بعد آئی ٹی کمپنی میں ملازمت ملنے پر میرا بیٹا اور گھر کے تمام لوگ ہی خوش تھے۔ بیٹے نے بتایا کہ اس کا کام اچھا چل رہا ہے، تنخواہ کے ساتھ کمیشن بھی اچھا بن رہا ہے۔ امید کا بھی اظہار کیا کہ مہینے کے آخر میں اچھی آمدنی ہو جائے گی۔ مہینے کا اختتام ہوا تو بیٹے نے والدہ کے ہاتھ میں اپنی پہلی تنخواہ رکھی، جو میری کئی برسوں کی ملازمت کے مقابلے میں زیادہ تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ کچھ ماہ تک یہ سلسلہ جاری رہا اور جنید کی ملازمت کے بعد گھر کے حالات بھی بدلنے لگے۔
’سب خوش تھے لیکن ایک روز جنید گھر واپس لوٹا تو بہت زیادہ پریشان تھا۔ میری اہلیہ نے بتایا کہ جنید کچھ پریشان ہے، آفس سے گھر آنے پر کھانا بھی نہیں کھایا اور اپنے کمرے میں بند ہے۔‘
انہوں نے بیٹے سے پریشانی کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ آفس میں کام کا دباؤ کچھ زیادہ ہے، اس لیے آرام کرنا چاہتا ہے۔
’جنید مگر اب روز ہی پریشان دکھائی دیتا تھا۔ ایک ہفتے کے بعد جنید سے اس بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ اسے کام میں بڑا نقصان ہوگیا ہے۔ کمپنی کہتی ہے کہ اس نقصان کا ازالہ مجھے کرنا ہے، چند ہزار روپے منافع تو ہوا لیکن اب ایک بڑی رقم نقصان کی مد میں ادا کرنی ہے۔ نقصان کی رقم اگر ادا نہیں کی تو کمپنی اس کے نام سے چیک بینک میں جمع کروائے گی اور باؤنس ہونے کی صورت میں اس کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا۔‘
کراچی میں ایسا ہی ایک اور واقعہ بھی پیش آیا ہے جب زبیر علی (فرضی نام) نے ملک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات کے نام ایک کھلا خط لکھا۔ اس خط میں انہوں نے اپنے بیٹے کے ساتھ ایسا ہی واقعہ پیش آنے کے متعلق بتایا۔
زبیر علی نے واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ آج کل پوش علاقوں میں عالی شان دفاتر بنا کر نوجوانوں کو اپنی جانب متوجہ کیا جاتا ہے اور ان کو ایک مہینے تک کرپٹو ٹریڈنگ وغیرہ کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔
’اس ایک مہینے میں بچوں کو وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ وی آئی پی لنچ اور ڈنر، گارڈ، خدمت گار اور شاندار دفاتر۔ بچوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے ان کے ایجنٹ ہمہ وقت متحرک رہتے ہیں۔‘
’ان کو آغاز میں ڈمی اکاؤنٹ بنا کر سکھایا جاتا ہے، پھر جب وہ سیکھ جاتے ہیں تو ان کا بینک اکاؤنٹ اوپن کروایا جاتا ہے جس پر یہ نوجوان خود کو ہواؤں میں اُڑتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ بعدازاں وہ ان نوجوانوں سے چار پانچ چیکس پر دستخط کروا کر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ اس کے بعد ان نوجوانوں کے اکاؤنٹ میں ڈالر جمع کروائے جاتے ہیں اور ٹریڈنگ کرنے کے لیے کہا جاتا ہے جس میں 80 فی صد منافع مالک اور 20 فی صد نوجوان کا ہوتا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس ٹریڈنگ اکاؤنٹ کا مکمل کنٹرول مالک اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے جب تک نفع ہوتا رہتا ہے وہ اپنا نفع حاصل کرتا رہتا ہے اور جب نقصان ہوتا ہے تو شروع شروع میں مالک کہتا ہے کہ کوئی بات نہیں، میں اور پیسے ڈلوا دیتا ہوں کیونکہ اس کو تو اپنے منافع سے مطلب ہوتا ہے جب کہ نقصان تو وہ ہم جیسے غریبوں سے کسی نہ کسی طور پر پورا کر ہی لیتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’نقصان سے گھبرا کر جب کوئی نوجوان کام چھوڑنے کی بات کرتا ہے تو اس کو چیک باؤنس ہونے کے مقدمے میں پھنسا دیا جاتا ہے اور گھر فروخت کرنے کے لیے ذہنی طور پر ٹارچر کیا جاتا ہے۔ پھر یہ نوجوان یا تو خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں یا بلیک میل ہوتے رہتے ہیں۔‘
ایف آئی اے کے ایک سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ایف آئی اے میں آن لائن ٹریڈنگ سے متاثرہ افراد کی جانب سے اس طرح کی شکایات موصول ہوتی رہتی ہیں۔ جلد از جلد امیر بننے کا خواب دکھا کر نوجوانوں کر نہ صرف لوٹا جا رہا ہے بلکہ ان کا کیریئر بھی تباہ کیا جا رہا ہے۔‘
’دنیا بھر میں آن لائن ٹریڈنگ کا کام ہو رہا ہے لیکن اس کام کے کچھ قاعدے ہیں۔ پاکستان میں سادہ لوح نوجوانوں کو جھوٹے سچے خواب دکھا کر اس کی جانب راغب کیا جاتا ہے، فائدہ ہونے کی صورت میں کمپنی کا مالک خوشی خوشی معاملات چلاتا ہے اور نقصان ہونے کی صورت میں ساری ذمہ داری بچوں پر عائد کر دی جاتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے پاکستان میں قوانین ضرور موجود ہیں مگر عوام ان کے بارے میں پوری طرح آگاہ نہیں ہیں، ذرا سی غلطی آپ کو بڑی مشکل میں ڈال سکتی ہے۔
انہوں نے رواں سال رپورٹ کیے گئے کیسز سے متعلق کہا ’یہ کیسز مختلف سیلز میں رپورٹ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت ہی کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے ساتھ ہوئی اس دھوکہ دہی پر اداروں سے رابطہ کرتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ چیک باؤنس کے معاملات پولیس بھی دیکھتی ہے تو کچھ کیسز پولیس کے پاس بھی ہوتے ہیں۔‘
ایف آئی کے اہلکار کا کہنا تھا کہ اس نوعیت کے کیسز درجنوں میں نہیں بلکہ سینکڑوں میں ہوں گے۔