Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پُرتشدد مظاہروں میں کمی، بنگلہ دیش میں ٹیلی کمیونیکیشن سروس جزوی بحال

مظاہرین نے پبلک ٹرانسپورٹ کو آگ لگائی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
بنگلہ دیش میں پُرتشدد مظاہروں میں کمی کے بعد حکام نے جزوی طور پر ٹیلی کمیونیکیشن سروسز کو بحال کر دیا ہے۔
طلبہ کے پُرامن مظاہرے گزشتہ ہفتے پُرتشدد احتجاج میں بدل گئے تھے جس کے بعد طلبہ اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں 150 افراد ہلاک جبکہ ہزاروں افراد زخمی ہو گئے تھے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حکام نے بتایا کہ بدھ کو سات گھنٹے کے لیے پابندیوں میں نرمی کی جائے گی اور دفاتر بھی صبح 11 بجے سے سہ پہر تین بجے تک کھلے رہیں گے۔
دارالحکومت ڈھاکہ کے رہائشیوں کو بدھ کی صبح سڑکوں پر نکلتے ہوئے دیکھا گیا اور کچھ مقامات پر بسیں بھی چل رہی تھیں۔
ملک میں اتوار کے بعد سے صورتحال پُرامن ہے جب سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم کے حوالے سے ہائی کورٹ کا فیصلہ ’غیرقانونی‘ قرار دیتے ہوئے 93 فیصد بھرتیاں میرٹ کی بنیاد پر کرنے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے سے تمام سرکاری ملازمتوں میں 56 فیصد مختص شدہ ملازمتوں کی تعداد کو کم کر کے سات فیصد کر دیا گیا۔
منگل کو وزیراعظم شیخ حسینہ کی حکومت نے کہا تھا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرے گی۔
احتجاج کرنے والے طلبہ نے حکومت کو مطالبات کی آٹھ نکاتی فہرست سے چار دیگر شرائط کو بھی پورا کرنے کے لیے 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا ہے۔

حکومت نے سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

احتجاج کی کوآرڈینیٹر ناہید اسلام نے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ حکومت ہمارے چار نکاتی مطالبات کو پورا کرے، جس میں انٹرنیٹ کی بحالی، کیمپسز سے پولیس کا انخلا، اور یونیورسٹیاں کھولنا جو ایک ہفتے سے بند ہیں۔‘
گزشتہ ماہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد 17  کروڑ کی آبادی والے ملک کو مظاہروں نے ہلا کر رکھ دیا۔ بنگلہ دیش میں تقریباً تین کروڑ 30 لاکھ نوجوان نوکری یا تعلیم سے محروم ہیں اور وہاں نصف سے بھی کم سرکاری ملازمتیں میرٹ پر دی جاتی ہیں۔
وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی جانب سے مظاہرین کے مطالبات ماننے سے انکار کرنے کے بعد مظاہروں میں شدت آ گئی تھی۔
انہوں نے احتجاج کرنے والے طلبہ کو 1971 کی جنگ میں پاکستانی فوج کی مدد کرنے والے ’رضاکاروں‘ سے تشبیہ دی۔

بڑی تعداد میں طلبہ نے مظاہروں میں حصہ لیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

رواں ہفتے شیخ حسینہ واجد نے اپنے سیاسی مخالفین کو پُرتشدد مظاہروں کا ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ جب بھی حالات بہتر ہوں گے کرفیو ہٹا دیا جائے گا۔
مرکزی اپوزیشن بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے تشدد میں کسی بھی قسم کے کردار سے انکار کیا ہے۔
انڈیا اور ملائیشیا سمیت خطے کے کئی ممالک نے گزشتہ چند دنوں کے دوران اپنے شہریوں کو نکالا۔

شیئر: