Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گوادر میں احتجاج، ’ایک بار پھر بلوچ یکجہتی کمیٹی کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں‘

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کہا ہے کہ مارچ کی کال کے بعد علاقے بھر میں انٹرنیٹ سروس متاثر ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
بلوچستان میں صوبائی حکومت کے ترجمان نے کہا ہے کہ وہ ایک بار پھر بلوچ یکجہتی کمیٹی کو مذاکرات کی دعوت دے رہے ہیں۔
سنیچر کی رات جاری کیے گئے ایک بیان میں بلوچستان حکومت کے ترجمان نے کہا کہ ’مستونگ میں فائرنگ سے متعلق افواہیں ہیں۔ سکیورٹی فورسز کی جانب سے فائرنگ کی اطلاعات غیر مصدقہ ہیں۔‘
قبل ازیں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے کہا گیا تھا کہ گوادر جانے والے قافلوں کو روکا جا رہا ہے اور مستونگ میں فائرنگ کی گئی ہے۔
یکجہتی کمیٹی نے اتوار کو ساحلی شہر گوادر میں احتجاج کی کال دی ہے جس میں شرکت کے لیے صوبوں کے دوسرے شہروں سے قوم پرست تنظیموں کے ارکان قافلوں کی صورت میں روانہ ہیں۔
ماہ رنگ بلوچ نے گوادر میں ’بلوچ راجی مچی‘ یا قومی مارچ کے لیے صوبے بھر کے لوگوں کو جمع ہونے کی دعوت دے رکھی ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کہا ہے کہ مارچ کی کال کے بعد علاقے بھر میں انٹرنیٹ سروس متاثر ہے۔
مارچ میں شرکت کے لیے جانے والوں کو روکنے اور مستونگ میں فائرنگ کے واقعے پر بلوچستان حکومت کے ترجمان نے کہا کہ ’صوبے میں امن و امان کی صورتحال کو دانستہ طور پر خرابی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔‘
ترجمان کا کہنا تھا کہ ’قانون سے کوئی بھی بالاتر نہیں، امن میں خلل ڈالنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔‘
صوبائی حکومت کے ترجمان کے مطابق ’گوادر میں مظاہرے کے درپردہ عزائم واضح ہیں، پُرامن احتجاج ہر کسی کا حق تاہم قانون کسی کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بلوچ یکجہتی کونسل کو بات چیت کے ذریعے معاملات حل کرنے کی دعوت دے چکے۔ بلوچستان کی خواتین اراکین اسمبلی نے مذاکرات کی دعوت دی۔‘
ترجمان کے مطابق ’وزیراعلی بلوچستان سرفراز بگٹی نے بلوچستان اسمبلی میں پالیسی بیان دیا۔ اور بلوچستان حکومت پرُامن احتجاج کا حق تسلیم کرتی ہے تاہم بلوچ یکجہتی کمیٹی جگہ کے انتخاب کا انتظامیہ کا حق تسلیم کرے۔‘
صوبائی حکومت کے ترجمان نے کہا کہ ’احتجاج کے لیے مقام کا تعین مقامی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ ایک بار بلوچ یکجہتی کمیٹی کو حکومت مذاکرات کی دعوت دیتی ہے۔‘

شیئر: