Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان میں کوئلہ لے جانے والے ٹرکوں پر حملے کیوں بڑھ رہے ہیں؟

ٹرکوں پر حملوں سے ٹرانسپورٹرز کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)
بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں مال بردار ٹرکوں پر فائرنگ کے واقعات کے خلاف شٹرڈاؤن ہڑتال کی گئی۔
صوبے میں کوئلہ لے جانے والے ٹرکوں پر فائرنگ کے مسلسل واقعات کے بعد ڈرائیور اور ٹرانسپورٹر خوف کا شکار ہیں اور حکومت سے تحفظ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
گزشتہ روز ضلع ہرنائی اور موسیٰ خیل میں دو مختلف واقعات میں فائرنگ کے واقعات میں ایک ٹرک ڈرائیور ہلاک جبکہ چار زخمی ہو گئے تھے۔
لیویز کنٹرول ہرنائی کے مطابق پیر کی شام کو ہرنائی کے علاقے طور خام میں بلوچستان سے کوئلہ پنجاب لے جانے والے ٹرکوں کو نامعلوم مسلح افراد نے روکنے کی کوشش کی اور نہ رکنے پر فائرنگ کر دی جس سے تین ڈرائیور شدید زخمی ہو گئے۔
مسلح افراد نے دو ٹرکوں کو نذرآتش بھی کیا۔ فائرنگ سے دو دیگر ٹرکوں کو نقصان پہنچا۔
اس واقعے کے خلاف ہرنائی ایکشن کمیٹی کی اپیل پر منگل کو شہر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔
شہر کے بیشتر کاروباری و تجارتی مراکز بند رہے اور واقعے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا۔
بلوچستان کے ضلع دکی، زیارت اور ہرنائی میں کوئلے کے کاروبار اور کانکنی سے وابستہ افراد پر حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
مئی میں نامعلوم افراد نے دکی کے قریب سنجاوی پاسرہ تنگی کے مقام پر فائرنگ کرکے ایک ٹرک ڈرائیور کو قتل جبکہ چار کو زخمی کردیا تھا۔ اس وقت مسلح افراد نے پانچ ٹرکوں کو نذر آتش بھی کردیا تھا۔
مئی ہی میں کوئلہ لے جانے والے ایک ٹرک کو بارودی سرنگ کے دھماکے میں نشانہ بنایا گیا جس کا معائنہ کرنے جب سی ٹی ڈی اہلکار موقع پر پہنچے تو دوسرا دھماکا ہو گیا۔ دونوں دھماکوں میں ایک شخص ہلاک اور 20 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
رواں سال مارچ میں دکی سے نامعلوم افراد نے سات کان کنوں کو اغوا کیا جنہیں 38 دنوں بعد مئی میں رہا کیا گیا۔
گزشتہ برس جون میں دو مختلف واقعات میں زیارت اور ہرنائی میں کوئلے سے بھرے تقریباً 50 ٹرکوں کو فائرنگ کر کے اور آگ لگا کر نقصان پہنچایا گیا تھا۔ ان واقعات کے خلاف ٹرانسپورٹروں نے جون اور اکتوبر میں احتجاجاً دو مرتبہ کوئلہ کی سپلائی روک دی تھی۔
خطرات میں اضافوں اور مسلسل حملوں کے باعث کوئلے کے شعبے سے وابستہ مزدور، ٹرک ڈرائیور، ٹھیکے دار اور مالکان خوف کا شکار ہیں اور ان کا روزگار اور کاروبار بھی متاثر ہے۔

ہرنائی ایکشن کمیٹی کی اپیل پر منگل کو شہر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی (فوٹو: شاہ حسین)

ایک متاثرہ ٹرک ڈرائیور نے بتایا کہ ’نقاب پوش حملہ آوروں نے ٹرک ڈرائیوروں اور عملے کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا اور دھمکی دی کہ اگر آئندہ ٹرکوں میں کوئلہ لے کر گئے تو ڈرائیوروں اور عملے کو بھی نہیں بخشا جائے گا۔ اس کی وجہ سے سب ٹرک ڈرائیور خوفزدہ ہیں۔‘
آل بلوچستان گڈز ٹرک ٹرانسپورٹ کمپنیز ایسوسی ایشن کے صدر نور احمد کاکڑ نے اردو نیوز کو بتایا کہ گزشتہ سال سے ان واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ٹرانسپورٹرز اور ڈرائیور سمیت ان کا عملہ خوف کا شکار ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ڈرائیورز زندگی داؤ پر لگا کر گاڑیاں چلا رہے ہیں۔ کئی ڈرائیور تو اس راستے پر اب جانے کو تیار بھی نہیں ہوتے۔
ان کا کہنا ہے کہ ٹرکوں پر حملوں سے ٹرانسپورٹرز کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اگرچہ ان نقصانات کا بعدازاں ازالہ کر دیا جاتا ہے لیکن بے امنی سے ہمارا روزگار اور کاروبار متاثر ہو رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’صرف بلوچستان کے تین اضلاع ہرنائی، دکی اور لورالائی سے روزانہ تین سو سے چار سو ٹرک کوئلہ لے کر پنجاب اور ملک کے دیگر صوبوں کو جاتے ہیں۔ ٹرکوں کو سکیورٹی کی فراہمی کے لیے 200 روپے فی ٹن سکیورٹی فورسز کو فراہم کہے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ واقعات  پیش آرہے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ٹرکوں کو صرف ایک محدود فاصلے تک سکیورٹی فراہم کرکے قافلے کی صورت میں لے جایا جاتا ہے۔ آگے  کئی سو کلومیٹر کا سفر ڈرائیوروں کو ویران اور خطرناک پہاڑیوں میں بغیر سکیورٹی کے طے کرنا پڑتا ہے۔
نور احمد کاکڑ کے مطابق راستے میں چند مسلح افراد پہاڑوں سے اتر کر ٹرکوں کو اسلحہ کے زور پر روکتے ہیں، ان کے پاس آتش گیر کیمیکل ہوتا ہے جس سے وہ چند ہی منٹ میں گاڑیوں کو آگ لگا دیتے ہیں۔
’مسلح لوگ ٹرک ڈرائیوروں اور ٹرانسپورٹرز کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ کوئلہ کی ترسیل بند کر دیں لیکن ہم مجبور ہیں ہمارے پاس روزگار کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں۔‘

مسلح افراد آتش گیر کیمیکل سے وہ چند ہی منٹ میں گاڑیوں کو آگ لگا دیتے ہیں (فوٹو: شاہ حسین)

حکام ان حملوں کے لیے کالعدم مسلح تنظیموں کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔
کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کے ایک عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’کوئلے کا شعبہ بلوچستان میں کالعدم مسلح تنظیموں کے لیے فنڈریزنگ کا اہم ذریعہ ہے۔ مسلح تنظیمیں گزشتہ کئی برسوں سے کوئٹہ، کچھی، ہرنائی اور دیگر علاقوں میں کوئلہ کان مالکان سے باقاعدگی سے رقم وصول کرتی آ رہی ہیں، اب وہ زیادہ رقم حاصل کرنے کے لیے دکی اور باقی اضلاع  اور مالکان کے ساتھ ساتھ کوئلہ کا کاروبار کرنے والے ایجنٹس اور ٹرانسپورٹرز سے بھی پیسے مانگ رہی ہیں۔‘
ان کے بقول ’سکیورٹی اداروں نے کالعدم تنظیموں کی فنڈنگ کا یہ ذریعہ روکنے کے لیے دوردراز علاقوں میں چیک پوسٹیں قائم کیں تو انہیں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی چیک پوسٹوں پر مسلسل حملے کیے گئے اور قافلوں کو بارودی سرنگ کے دھماکوں میں نشانہ بنایا گیا۔‘
محکمہ معدنیات کے مطابق کوئٹہ، مچھ، ہرنائی، شاہرگ، دکی، چمالانگ سمیت بلوچستان میں کوئلے کے 250 ملین ٹن کے ذخائر موجود ہیں۔  یہاں کا کوئلہ پاکستان بھر میں اینٹوں کے بھٹوں اور سیمنٹ کے کارخانوں سے لے کر بجلی کے پاور پلانٹس تک کئی شعبوں میں استعمال ہوتا ہے۔ بلوچستان میں کوئلہ کی کانکنی اور کاروبار سے لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی بلوچستان کی کوئلہ کانوں سے متعلق نومبر 2022ء کی ’فیکٹ فائنڈنگ  رپورٹ‘ میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں کوئلے کے شعبے سے وابستہ مزدوروں کو دوہرے خطرات درپیش ہیں۔ وہ نہ صرف صحت و حفاظت کے انتظامات نہ ہونے کے باعث حادثات کا شکار ہو رہے ہیں بلکہ مذہبی اور قوم پرست عسکریت پسندوں کے ہاتھوں اغوا اور قتل بھی کیے جا رہے ہیں۔
ایس ایچ آرسی پی کے بلوچستان میں نمائندے حبیب طاہر ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ’کوئلہ کان مالکان سے سکیورٹی کے نام پر ریاست بھی پیسہ لے رہی ہے اور پہاڑوں پر بیٹھے لوگ بھی ان سے اپنا شیئر لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود کان مالکان اور نہ ہی کان کنوں کو تحفظ حاصل ہے۔‘

شیئر: