’حکومتی حق کو تسلیم کرنا ہوگا‘، وزیراعلٰی کی ماہ رنگ بلوچ کو مذاکرات کی دعوت
’حکومتی حق کو تسلیم کرنا ہوگا‘، وزیراعلٰی کی ماہ رنگ بلوچ کو مذاکرات کی دعوت
پیر 29 جولائی 2024 19:07
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ وہ صرف گوادر کے میرین ڈرائیو پر احتجاج کرنے پر مصر تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی نیت کچھ اور تھی۔ (فائل فوٹو: ایکس)
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز احمد بگٹی نے ایک بار پھر بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم ان کی ہر بات کو ماننے کے لیے تیار ہیں لیکن انہیں احتجاج کو منظم کرنے سے متعلق حکومتی حق کو تسلیم کرنا ہو گا۔ ہم کسی جتھے کو شہروں اور سڑکوں کو کنٹرول کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
پیر کو بلوچستان اسمبلی میں اپنے خطاب میں وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے کہا کہ ’گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اجتماع کا مقصد پرامن احتجاج نہیں بلکہ اس اہم شہر کو یرغمال بنا کر ترقیاتی منصوبوں، چینی سرگرمیوں اور سی پیک کے دوسرے مرحلے کے آغاز کو روکنا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس پورے بحران میں ہم نے پوری کوشش کی کہ کہیں پر گولی نہ چلے اور کوئی گولی سے نہ مرے۔ احتجاج کے دوران ہلاکتوں کی تحقیقات ہو رہی ہیں جس کلیبر کی گولیاں استعمال کی گئیں وہ فورسز استعمال نہیں کرتیں۔
خیال رہے کہ بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ’بلوچ راجی مچی‘ یعنی ’بلوچ قومی اجتماع‘ کے نام سے جلسے کو روکنے کے لیے حکومتی اقدامات، اور مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کی وجہ سے صوبے میں معاملات زندگی بری طرح متاثر ہیں۔ صوبے کی بیشتر شاہراہیں ہر قسم کی ٹریفک کے لیے معطل ہیں۔
تاہم پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے پیر کو جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’29 جولائی بروز پیر ایک مشتعل ہجوم نے بلوچ راجی مچی کے لبادے میں گوادر میں سکیورٹی پر تعینات سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر حملہ کیا جس میں ضلع سبی کے رہائشی 30 سالہ سپاہی شبیر بلوچ شہید ہو گئے۔ اس کے علاوہ، پرتشدد مظاہرین کے بلا اشتعال حملوں کے نتیجے میں ایک افسر سمیت 16 فوجی زخمی ہوئے۔‘
’دوسری جانب سوشل میڈیا پر غیرقانونی پُرتشدد مارچ کے لیے ہمدردی اور حمایت حاصل کرنے کے لیے پروپیگنڈا کرنے والوں کی جانب سے تحریف شدہ تصاویر اور ویڈیوز کا استعمال کرتے ہوئے جعلی اور بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔‘
آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ سیکورٹی فورسز نے اشتعال انگیزی کے باوجود شہریوں کی غیرضروری ہلاکتوں سے بچنے کے لیے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ تاہم ہجوم کی پرتشدد کارروائیاں ناقابل قبول ہیں اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
وزیراعلٰی بلوچستان نے کہا کہ وہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی عزت کرتے ہیں، ان کے ساتھ کچھ عرصہ قبل حکومت کا تحریری معاہدہ ہوا جس میں انہوں نے مانا جب وہ جلسے جلوس کریں گے تو حکومت سے اجازت لیں گے مگر انہوں نے گوادر میں احتجاج کی جگہ تبدیل کرنے یا پھر جلسہ تربت منتقل سے متعلق حکومت کی کسی بات اور پیشکش کو نہیں مانا۔
سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ وہ صرف گوادر کے میرین ڈرائیو پر احتجاج کرنے پر مصر تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی نیت کچھ اور تھی۔ ان کا مقصد صرف اور صرف تمام سرگرمیاں کو سبوتاژ کرنا تھا جن میں بلوچستان کی بہتری تھی۔
’سارے لوگ کہتے ہیں کہ یہ پرامن لوگ تھے۔ تو سوال یہ ہے کہ یہ پُرامن لوگ نقاب کیوں کرتے ہیں اور اپنا منہ کیوں چھپاتے ہیں؟ ایف سی پر فائرنگ کیسے کر لیتے ہیں۔ فائرنگ سے سبی کے رہنے والے لانس نائیک شبیر شہید ہوئے، ایک لیفٹیننٹ کی آنکھ ضائع ہو گئی۔ ایف سی کے 16 جوان زخمی ہوئے ہیں، پولیس اور لیویز اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔‘
وزیراعلٰی بلوچستان نے گوادر سے منتخب رکن اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہماری غلطی ہے کہ آپ سے مشاورت نہیں ہوئی، آپ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
خیال رہے کہ گوادر سے بلوچستان اسمبلی کے رکن مولانا ہدایت الرحمان نے احتجاجاً بلوچستان حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے گوادر میں اپنے احتجاجی جلسے کو دھرنے میں تبدیل کر دیا ہے اور عندیہ دیا ہے کہ قافلوں کو گوادر جانے کی اجازت دینے اور تمام گرفتار افراد کی رہائی تک دھرنا جاری رکھا جائے گا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’بلوچ راجی مچی‘ یعنی ’بلوچ قومی اجتماع‘ پہلے جلسے کی صورت میں صرف ایک دن کے لیے منعقد ہونا تھا لیکن ریاستی جبر کے خلاف اب اسے دھرنے میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے انتظامیہ کو دونوں مطالبات پر عمل درآمد کے لیے 48 گھنٹوں کی مہلت دی ہے اور کہا ہے کہ مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو دھرنے کو غیرمعینہ مدت تک جاری رکھا جائے گا۔
اس سے پہلے اتوار کو تمام رکاوٹوں کے باوجود گوادر میں ساحل کے ساتھ پدی زر یا میرین ڈرائیو کے نام سے معروف سڑک پر بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اپنا احتجاج کیا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ ان میں خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی شامل تھی۔