Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچ یکجہتی کمیٹی کا گوادر میں دھرنا، صوبے میں حالات کشیدہ

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کہا ہے کہ بلوچ قومی اجتماع پہلے صرف ایک دن کے لیے منعقد ہونا تھا لیکن ریاستی جبر کے خلاف اب اسے دھرنے میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
’دو دنوں سے ہم سڑکوں پر رُل رہے ہیں، نہ آگے جا سکتے ہیں اور نہ ہی پیچھے، جہاں رکے ہوئے ہیں وہاں سارے ہوٹلز بند ہیں، کھانے پینے کو کچھ نہیں مل رہا۔‘ یہ کہنا ہے محمد عباس کا جو دو دن پہلے کراچی سے کوئٹہ کے لیے نکلے تھے لیکن ابھی تک اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔ گھنٹوں کا یہ سفر ان کے لیے دنوں میں بدل گیا ہے۔
محمد عباس کا کہنا ہے کہ حب اور لسبیلہ میں مختلف مقامات پر ہمیں روکا گیا، کہیں انتظامیہ نے مظاہرین کو گوادر جانے سے روکنے کے لیے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کی ہیں، کہیں مظاہرین حکومت کے اس اقدام کے خلاف سڑک پر دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مسافر بسوں، مال بردار گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں، ہزاروں لوگ پھنسے ہوئے ہیں، ان میں خواتین، بچے، بزرگ اور بیمار بھی شامل ہیں۔
’اوتھل کے قریب تمام ہوٹلز اور دکانیں بند کرا دی گئی ہیں کھانے پینے کی اشیا بھی نہیں مل رہیں۔ ہم حیران ہیں کہ کہاں جائیں؟ آگے بھی راستہ بند ہے اور پیچھے بھی راستہ بند ہے۔‘
بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ’بلوچ راجی مچی‘ یعنی ’بلوچ قومی اجتماع‘ کے نام سے جلسے کو روکنے کے لیے حکومتی اقدامات، اور مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کی وجہ سے صوبے میں معاملات زندگی بری طرح متاثر ہیں۔ صوبے کی بیشتر شاہراہیں ہر قسم کی ٹریفک کے لیے معطل ہیں۔
تاہم پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے پیر کو جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’29 جولائی بروز پیر کو ایک مشتعل ہجوم نے بلوچ راجی مچی کے لبادے میں گوادر میں سکیورٹی پر تعینات فورسز کے اہلکاروں پر حملہ کیا جس میں ضلع سبی کے رہائشی 30 سالہ سپاہی شبیر بلوچ شہید ہو گئے۔ اس کے علاوہ، پرتشدد مظاہرین کے بلا اشتعال حملوں کے نتیجے میں ایک افسر سمیت 16 فوجی زخمی ہوئے۔‘
’دوسری جانب سوشل میڈیا پر غیرقانونی پُرتشدد مارچ کے لیے ہمدردی اور حمایت حاصل کرنے کے لیے پروپیگنڈا کرنے والوں کی جانب سے تحریف شدہ تصاویر اور ویڈیوز کا استعمال کرتے ہوئے جعلی اور بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔‘
آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ سیکورٹی فورسز نے اشتعال انگیزی کے باوجود شہریوں کی غیرضروری ہلاکتوں سے بچنے کے لیے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔
تاہم ہجوم کی پرتشدد کارروائیاں ناقابل قبول ہیں اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
دوسری جانب مظاہرین پر تشدد کے خلاف کوئٹہ میں وکلا تنظیموں کی جانب سے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا گیا۔ مستونگ، قلات، خاران، نوشکی، چاغی اور کیچ سمیت صوبے کے کئی شہروں میں دو دنوں سے شٹر ڈاؤن ہڑتال کی جا رہی ہے۔
گوادر سے منتخب رکن بلوچستان اسمبلی حق دو تحریک کے مولانا ہدایت الرحمان نے ٹیلیفون پر اردو نیوز کو بتایا کہ پولیس اور سکیورٹی فورسز نے دھرنے کے شرکا کو منتشر کرکے میرین ڈرائیور سے ہٹادیا ہے۔ 
انہوں نے بتایا کہ سکیورٹی فورسز نے تقریباً 40 مظاہرین کو گرفتار کیا ہے جن میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے قائدین سمی دین بلوچ اور صبغت اللہ شاہ جی بھی شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گوادر کو جانے والی تمام سڑکیں اور موبائل فون نیٹ ورک اور انٹرنیٹ سروس تاحال بند ہے۔
قلات کے رہائشی عبداللہ لہڑی نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ ’شہر میں دو دنوں سے  تمام دکانیں اور بازار بند ہیں حتیٰ کہ میڈیکل سٹورز بھی بند پڑے ہیں۔ کھانے پینے کی اشیا تو چھوڑیں بچوں کا دودھ اور بیماروں کے لیے ادویات بھی نہیں مل رہیں۔ شہری گھروں میں محصور ہیں، انہیں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔‘
گوادر سے منتخب رکن بلوچستان اسمبلی حق دو تحریک کے مولانا ہدایت الرحمان نے ٹیلیفون پر اردو نیوز کو بتایا کہ پولیس اور سکیورٹی فورسز نے دھرنے کے شرکا کو منتشر کرکے میرین ڈرائیور سے ہٹادیا ہے۔ 
انہوں نے بتایا کہ سکیورٹی فورسز نے تقریباً 40 مظاہرین کو گرفتار کیا ہے جن میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے قائدین سمی دین بلوچ اور صبغت اللہ شاہ جی بھی شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گوادر کو جانے والی تمام سڑکیں اور موبائل فون نیٹ ورک اور انٹرنیٹ سروس تاحال بند ہے۔
گوادر کے رہائشی صداقت بلوچ نے بتایا کہ ’میں گوادر کے لیے نکلا تھا تین دنوں سے اوتھل میں پھنسا ہوا ہوں، گوادر میں اپنے کسی رشتہ دار سے رابطہ نہیں ہو رہا، انتظامیہ نے گوادر جانے والے تمام راستوں کو تین دنوں سے سیل کر رکھا ہے، کسی کو گوادر جانے یا پھر وہاں سے نکلنے کی اجازت نہیں۔ گوادر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس کے ساتھ ساتھ لینڈ لائن سروس بھی بند ہے۔ اس مواصلاتی بلیک آؤٹ کی وجہ سے شہریوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔‘

مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کی وجہ سے صوبے میں معاملات زندگی بری طرح متاثر ہیں۔ (فوٹو: بلوچ یکجہتی کمیٹی)

میرک 1122، پولیس اور لیویز کنٹرول کے کنٹرول رومز کے مطابق کوئٹہ کراچی شاہراہ مستونگ، منگچر، قلات، حب کے مقامات جبکہ مکران کوسٹل ہائی وے زیرو پوائنٹ اوتھل، کنڈ ملیر، اورماڑہ سمیت درجن کے قریب شاہراہیں مختلف مقامات پر بند رکھی گئی ہیں۔
اسی طرح پنجگور کو کیچ اور گوادر سے ملانے والی ایم ایٹ 8 شاہراہ کو ڈی بلوچ تربت اور تالار چیک پوسٹ کے مقامات پر بند رکھا گیا ہے۔ کوئٹہ کو نوشکی اور تفتان سے ملانے والی شاہراہ نوشکی میں دو مقامات پر بند ہیں۔
کنٹرول رومز کے اہلکاروں نے تصدیق کی کہ ان میں سے کئی مقامات پر سڑکیں انتطامیہ نے رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کی ہیں تو کئی مقامات پر روکے جانے کے خلاف مظاہرین نے دھرنے دے رکھے ہیں۔
کوئٹہ اور مستونگ کے درمیان لکپاس اور دشت تیرا مل کے مقام پر انتظامیہ نے سڑکوں کو دو دنوں سے بند رکھا تھا جسے پیر کی صبح کھول دیا گیا۔ میرک 1122 کے کنٹرول روم کے مطابق کوئٹہ کو جیکب آباد سے ملانے والی این 65 شاہراہ، کوئٹہ کو ژوب سے ملانے والی این 50 اور کوئٹہ کو لورالائی ڈیرہ غازی خان سے ملانے والی این 70 شاہراہیں آمدورفت کے لیے کھلی ہیں ۔
صوبے میں جگہ جگہ احتجاج اور شاہراہوں کی بندش کی وجہ سے معاملات زندگی متاثر ہیں۔ شہری، تاجر اور مسافر پریشان ہیں۔ کوئٹہ کی ہزار گنجی فروٹ منڈی کے ایک تاجر شیر محمد نے بتایا کہ دو دنوں سے منڈی میں کاروباری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہیں، لوگوں نے کراچی اور باقی شہروں کے لیے یہاں سے پھلوں سے لدے ٹرک بھیجے جو راستے میں پھنس گئے جس کی وجہ سے پھل خراب ہو گئے ہیں۔
لسبیلہ کے اسسٹنٹ کمشنر علی شاہ عباسی کے مطابق اوتھل میں مظاہرین نے واپس کراچی کا رخ کر لیا ہے اس لیے راستہ اب کھل رہا ہے۔ تاہم دو دنوں سے راستہ بند ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں، راستے کو مکمل بحال ہونے میں مزید کئی گھنٹے لگ سکتے ہیں۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ریاست نے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا اس کے باوجود وہ لوگوں کو باہر نکلنے سے نہیں روک سکی۔ (فائل فوٹو: ایکس)

حب کے مقامی صحافیوں کے مطابق گوادر میں جلسے میں شرکت کی اجازت نہ ملنے پر واپس کراچی جانے والے مظاہرین نے حب کے علاقے بھوانی کے مقام پر انتظامیہ کی جانب سے شاہراہ بند کرنے کے خلاف گڈانی موڑ پر سڑک پر بیٹھ کر احتجاج شروع کر دیا ہے۔
ادھر کوئٹہ اور مستونگ سے گوادر کے لیے نکلنے والا قافلہ انتظامیہ کی جانب سے روکے جانے کے باعث مستونگ میں موجود ہے۔ اس کے شرکا نے مستونگ نواب ہوٹل کے قریب دھرنا دے رکھا ہے۔
کوئٹہ میں گاہی خان چوک اور سونا خان کے مقامات پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح کوئٹہ میں سریاب روڈ اور ریلوے لائن کے ساتھ لنک سڑک پر احتجاج کی وجہ سے راستے بند ہیں۔ کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی اپیل پر سریاب روڈ بلوچستان یونیورسٹی سے ریلی نکالی گئی۔
دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی نے گوادر میں اپنے احتجاجی جلسے کو دھرنے میں تبدیل کر دیا اور عندیہ دیا ہے کہ قافلوں کو گوادر جانے کی اجازت دینے اور تمام گرفتار افراد کی رہائی تک دھرنا جاری رکھا جائے گا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچ راجی مچی یعنی بلوچ قومی اجتماع پہلے جلسے کی صورت میں صرف ایک دن کے لیے منعقد ہونا تھا لیکن ریاستی جبر کے خلاف اب اسے دھرنے میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے انتظامیہ کو دونوں مطالبات پر عمل درآمد کے لیے 48 گھنٹوں کی مہلت دی ہے اور کہا ہے کہ مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو دھرنے کو غیرمعینہ مدت تک جاری رکھا جائے گا۔
اس سے پہلے اتوار کو تمام رکاوٹوں کے باوجود گوادر میں ساحل کے ساتھ پدی زر یا میرین ڈرائیو کے نام سے معروف سڑک پر بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اپنا احتجاج کیا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ ان میں خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی شامل تھی۔

گوادر میں میرین ڈرائیو کے نام سے معروف سڑک پر بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اپنا احتجاج کیا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

احتجاج سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، سمی دین بلوچ، صبغت اللہ شاہ جی اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اپنے خطاب میں حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ریاست نے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا اس کے باوجود وہ لوگوں کو باہر نکلنے سے نہیں روک سکی۔
انہوں نے بین الاقوامی اداروں سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کا دعویٰ ہے کہ گوادر میں احتجاج کے شرکاء اور قافلوں کی صورت میں گوادر جانے کی کوشش کرنے والوں پر مستونگ، تالار چیک پوسٹ اور کنڈ ملیر کے مقامات پر فائرنگ کی گئی جس میں کم از کم دو افراد ہلاک اور 20 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ کمیٹی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ سینکڑوں مظاہرین کو گرفتار کیا گیا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پیر کو سکیورٹی فورسز کی جانب سے جاری دھرنے کو منتشر کرنے اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت دیگر قائدین کو گرفتار کرنے کے لیے کارروائی کی گئی اور آنسو گیس شیلنگ کا بھی استعمال کیا گیا، تاہم مظاہرین نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری کے خلاف مزاحمت کی۔
بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیا اللہ لانگو گوادر کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے پیر کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے ساحلی شہر پہنچ گئے ہیں جہاں انہوں نے اجلاس کی صدارت کی۔
سرکاری بیان کے مطابق صوبائی وزیر کو گوادر کی مجموعی صورتحال پر تفصیلی بریفنگ دی گئی اور بتایا گیا کہ کچھ عناصر قانون ہاتھ میں لیکر امن و امان سبوتاژ کرنا چاہتے تھے جن کے خلاف کارروائی کی گئی ۔اب تک 20 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

صوبائی وزیر داخلہ ضیا اللہ لانگو نے کہا ہے کہ کچھ شرپسند عناصر گوادر کے حالات خراب کرنا چاہتے تھے جس انہیں مکمل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ (فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان)

اپنے ایک بیان میں صوبائی وزیر داخلہ ضیا اللہ لانگو نے کہا ہے کہ گوادر میں تمام مظاہرین منتشر ہو گئے، حالات معمول پر آ گئے ہیں۔ گوادر کے حالات کنٹرول کرنے پر تمام ادارے مبارک باد کے مستحق ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ شرپسند عناصر گوادر کے حالات خراب کرنا چاہتے تھے جس میں انہیں مکمل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
صوبائی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان کے مطابق بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ تاہم کسی بلیک میلنگ میں آ کر قومی سلامتی داؤ پر نہیں لگا سکتے۔ان کا کہنا تھا کہ ایسے کسی عمل کی اجازت نہیں دے سکتے کہ احتجاج کی آڑ میں ریاستی رٹ کو چیلنج، سرکاری املاک کو نقصان اور عوام کو تکلیف دی جائے۔

شیئر: