Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برصغیر پر اپنی آواز سے راج کرنے والے کشور کمار کے گانوں کا جادو آج بھی برقرار

کشور کمار 4 اگست 1929 کو مدھیہ پردیش کے شہر کھنڈوا میں پیدا ہوئے تھے۔ فوٹو: انڈیا ٹوڈے
وہ بچپن میں سُریلا نہیں تھا اور تو اور، وہ روتا بھی سُروں میں نہیں تھا۔ اس کی آواز بہت بری تھی۔ وہ پانچ برس کا تھا جب ایک روز اس کی ماں سبزیاں کاٹ رہی تھی اور وہ شرارتیں کر رہا تھا کہ چھری اس کے ہاتھ کو لگ گئی، وہ گھائل ہوا اور کئی روز تک روتا رہا۔ اس کا یہ زخم بھرا تو اس کی آواز سُروں سے ہم آہنگ ہو چکی تھی۔
یہ ابھاس کمار گنگولی کی کہانی ہے جنہیں دنیا کشور کمار کے نام سے جانتی ہے۔ وہ آج ہی کے روز 1929 کو بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر کھنڈوا کے ایک بنگالی خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔
یہ وہ کشور کمار ہی ہیں جنہوں نے ایک زمانے تک اپنی جادوئی آواز سے برصغیر پاک و ہند پر راج کیا اور محمد رفیع، مکیش، طلعت محمود اور مناڈے جیسے مہان کلاکاروں کی موجودگی میں اپنی منفرد آواز کا جادو جگانے میں کامیاب رہے۔
کشور کمار ایک کامیاب اداکار بھی تھے اور اُن کے برجستہ مزاح کا ایک دنیا دیوانہ تھا۔ وہ دلیپ کمار، راج کپور اور دیوآنند کے عہد میں فلموں میں آئے۔ ان کی پہلی فلم ’شکاری‘ سال 1946 میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں اشوک کمار نے مرکزی کردار ادا کیا تھا اور17  برس کے کشور کمار معاون اداکار کے طور پر دکھائی دیے تھے۔ انہوں نے آنے والے برسوں میں ’لڑکی‘، ’چار پیسے‘ اور ’باپ رے باپ’ جیسی کامیاب فلموں میں کام کیا اور وہ ان کامیابیوں کی وجہ سے مکمل طور پر اداکاری کی جانب متوجہ ہو گئے۔
بات آگے بڑھانے سے قبل کچھ ذکر بالی ووڈ کے گنگولی خاندان کا ہو جائے جس کے بانی اپنے عہد کے کامیاب ترین اداکار اشوک کمار تھے۔
یہ وہ اشوک کمار ہی ہیں جو سال 1936 میں ریلیز ہونے والی فرانز اوسٹن کی فلم ’جیون نیا‘ میں انڈین سنیما کی ’فرسٹ لیڈی‘ دیویکا رانی کے ساتھ نظر آئے جس کے بعد ان دونوں نے ایک ساتھ کئی فلموں میں کام کیا۔
یوسف خان کو دریافت کرنے اور ان کو دلیپ کمار کا نام دینے کا سہرا انہی دیویکا رانی کو جاتا ہے جو بمبئی ٹاکیز کی مالکہ تھیں جب کہ سال 1943 تک اشوک کمار اس کے کرتا دھرتا تھے جس کے بعد انہوں نے ششدھر مکھرجی کے ساتھ مل کر فلستان سٹوڈیو قائم کیا اور دیویکا رانی نے جب فلمی دنیا سے ریٹائرمنٹ لی تو اشوک کمار اور ششدھر مکھرجی نے بمبئی ٹاکیز بھی خرید لیا جس کے باعث اشوک کمار کے اس عہد کی فلمی صنعت پر اثرات کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں رہتا۔

کشور کمار گلوکار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب اداکار بھی تھے۔ فوٹو: انڈیا ٹوڈے

کشور کمار اس عہد کے دوسرے گلوکاروں محمد رفیع اور مکیش کی طرح کے ایل سہگل کی موسیقی کے مداح تھے اور ان کی طرح ہی سُروں کا جادو جگانا چاہتے تھے مگر انہوں نے بڑے بھائی اشوک کمار کی خواہش کو مقدم جانتے ہوئے اداکاری کا انتخاب کیا۔ اس وقت تک ان کے دوسرے بھائی انوپ کمار بھی ایک اداکار کے طور پر شناخت حاصل کر چکے تھے۔
اشوک کمار کا یہ خیال تھا کہ کشور کے لیے محمد رفیع، طلعت محمود اور مکیش کے ہوتے ہوئے گلوکاری میں کامیاب ہونا آسان نہیں ہو گا اور وہ اُن میں پنہاں ایک گلوکار کو تلاش میں ناکام رہے تھے۔
یوں کشور کمار کا ایک اداکار کے طور پر سفر شروع ہوا جس میں انہیں اس وقت مزید کامیابی ملی جب وہ بے مثل ہدایت کار بمل رائے کی سال 1954 میں ریلیز ہونے والی فلم ’نوکری’ اور رشی کیش مکھرجی کی بطور ہدایت کار سال 1957 میں ریلیز ہوئی ان کی پہلی فلم ’مسافر’ میں نظر آئے۔
بمل رائے بالی ووڈ کے چند عظیم ترین ہدایت کاروں میں سے ایک ہیں اور ان کی فلم ’دو بیگھہ زمین’ نے بالی ووڈ میں حقیقت پسندانہ سنیما کے نئے رجحانات متعارف کروائے جب کہ رشی کیش مکھرجی بالی ووڈ میں کمرشل اور متوازی سنیما کے عناصر کو یکجا کر کے ایک درمیانی سنیما کھوجنے میں کامیاب رہے۔ ’مسافر‘ میں دلیپ جی بھی جلوہ گر ہوئے تھے۔ اس فلم کی کہانی رشی کیش مکھرجی اور رتوک گھاٹک نے لکھی تھی جن کا شمار ستیہ جیت رے اور مرینل سین جیسے مہان ہدایت کاروں کی فہرست میں ہوتا ہے۔
کشور کمار نے ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اداکار کے طور پر غیرمعمولی کامیابی حاصل کی۔ اس دوران وہ گیت گاتے رہے۔ انہوں نے پہلا گیت سچن دیو برمن (ایس ڈی برمن) کی ترتیب دی گئی موسیقی میں فلم ’آٹھ دن‘ کے لیے گایا تھا مگر سال 1948 میں ریلیز ہوئی فلم ’ضدی‘ کے لیے ان کا گیت مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں۔۔۔۔ شائقین موسیقی کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ اس سے اگلے ہی برس فلم ’کنیز‘ کے لیے ان کے گیت ’دنیا میں امیروں کو‘ ریلیز ہوا جس میں ان کے ساتھ معاون گلوکار محمد رفیع تھے۔

اشوک کمار کا خیال تھا کہ کشور کے لیے محمد رفیع کے ہوتے ہوئے گلوکاری میں کامیاب ہونا آسان نہیں ہو گا۔ فوٹو: کوئی موئی

سال 1957 میں ریلیز ہوئی فلم ’آشا‘ میں شامل کشور جی کا گیت ’اینا مینا ڈیکا‘ نے مقبولیت کے کئی ریکارڈ قائم کیے۔ یہ ہندی سنیما کا اولین راک اینڈ رال گیت تھا، اور سال 1957 میں ریلیز ہوئی فلم ’پیئنگ گیسٹ‘ کا یہ گیت تو آپ نے ضرور سن رکھا ہوگا،
’مانا جناب نے پکارا نہیں
کیا میرا ساتھ بھی گوارہ نہیں
مفت میں بن کے
چل دیے تن کے
واللہ، جواب تمہارا نہیں‘
یا پھر اسی فلم کا یہ دو گانا،
’چھوڑ دو آنچل زمانہ کیا کہے گا
اواواوو
چھوڑ دو آنچل زمانہ کیا کہے گا
ہا، ہا، ہا… ان ادائوں کا زمانہ بھی ہے دیوانہ
دیوانہ کیا کہے گا’
ہمیشہ کے لیے اَمر ہو گیا۔اس فلم کی موسیقی ایس ڈی برمن نے ترتیب دی تھی جب کہ شاعر تھے سلطان مجروح پوری۔ دونوں ہی فن کی دنیا کے بڑے نام تھے۔ ایس ڈی برمن کے کامیاب گیت زیادہ تر رفیع اور کشور نے گائے۔
اولڈ راوین دیو آنند اور نوتن پر فلمائے گئے ان گیتوں کے بعد بھی کشور جی کی پہلی ترجیح اداکاری رہی۔ اس کے باوجود کہ وہ فلم ’ضدی‘ کے گیت مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں…کے ذریعے دیو آنند کو آواز دے چکے تھے جس کے بعد دونوں فنکاروں میں مکیش اور راج کپور یا دلیپ جی اور محمد رفیع کی طرح کا ایک ایسا تخلیق رشتہ قائم ہوا جو اگلے کئی برسوں تک جادو جگاتا رہا۔
سال 1958 میں ریلیز ہوئی فلم ’چلتی کا نام گاڑی‘ میں اشوک کمار، انوپ کمار اور کشور کمار ایک ساتھ بڑے پردے پر نظر آئے۔ اس فلم میں مدھو بالا بھی جلوہ گر ہوئیں۔ یہ اداکارہ کی لگاتار چوتھی کامیاب فلم تھی۔ فلم کا یہ یادگار گیت
’حال کیسا ہے جناب کا
کیا خیال ہے آپ کا
تم تو مچل گئے ہو ہو ہو
یوں ہی پھسل گئے ہا ہا ہا‘
اور ایک اور گیت،
’اک لڑکی بھیگی بھاگی سی
سوتی راتوں میں جاگی سی
ملی اک اجنبی سے
کوئی آگے نہ پیچھے
تم ہی کہو یہ کوئی بات ہے، ہونہہ‘

گیت ’روپ تیرا مستانہ‘ پر کشور کمار کو پہلا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ فوٹو: انڈین ایکسپریس

اس فلم کی موسیقی بھی ایک بار پھر ایس ڈی برمن اور شاعری سلطان مجروع پوری نے کی تھی جن کی شاعری کے چلبلے اور گفتگو کے انداز کو کشور کمار کامیابی سے گانے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے مکیش کی طرح کے ایل سہگل کے اثر سے نکلنے کے لیے زیادہ کوشش نہیں کی جس میں ایس ڈی برمن نے بھی ان کی مدد کی اور یوں وہ ابتدائی گیتوں میں ہی اپنی گائیکی کا منفرد انداز متعارف کروانے میں کامیاب رہے۔ ان دونوں گیتوں کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ یہ دونوں کشور اور مدھو بالا پر پکچرائز ہوئے تھے۔ ان دونوں کے درمیان فلم کے سیٹ پر محبت پروان چڑھنے لگی تھی جو آنے والے ماہ و سال میں اس قدر گہری ہوگئی کہ دونوں رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔
اس کہانی میں مگر بہت سے موڑ آئے۔ مدھو بالا اور دلیپ کمار کی محبت کا دردناک انجام تاریخ میں رقم ہو چکا۔ ان دونوں کی راہیں جدا ہوئیں تو مدھو بالا جذباتی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں۔ اور تب ہی ان کی زندگی میں کشور آئے۔ وہ بھی اپنی بیوی کو طلاق دے چکے تھے۔ وہ جلد ہی مدھو بالا پر فریفتہ ہو  گئے، مدھو بالا کے جذبات بھی کچھ مختلف نہیں تھے۔ اس لیے کشور جی نے جب مدھو بالا کو شادی کے لیے پروپوز کیا تو اداکارہ کا جواب ’ہاں‘ میں تھا۔
 فلم فیئر میگزین کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں اداکارہ کی بہن مدھر بھوشن نے کہا تھا،
’وہ غالباً ان کی دل کو موہ لینے والی آواز اور حسِ مزاح سے متاثر ہوئی تھیں۔‘
ان دونوں کی شادی میں مذہب ایک رکاوٹ بن گیا۔ کشور کمار مدھوبالا کے والدین کی خوشی کے لیے مسلمان ہو گئے اور انہوں نے اپنا نام کشور سے تبدیل کر کے کریم عبدل رکھ لیا اور دونوں نکاح کر کے ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کے ہو گئے۔
کشور کمار کے ہندو خاندان نے مگر مدھو بالا کو قبول نہیں کیا جب کہ ان دونوں نے ہندو طور طریقے کے مطابق بھی شادی کی رسومات ادا کی تھیں۔ ان واقعات نے اداکارہ کی ذہنی صحت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
مدھر بھوشن نے فلم فیئر میگزین کو دیے گئے اپنے اِس انٹرویو میں یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ ان کے والد اپنی بیٹی کی ذہنی صحت کے باعث کشور کے ساتھ ان کی شادی کرنے کے حق میں نہیں تھے، مگر اس کے باوجود سال 1960 میں وہ دونوں رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گئے اور شادی کے کچھ ہی روز بعد لندن چلے گئے جہاں ڈاکٹروں نے یہ انکشاف کیا کہ مدھو بالا کے دل میں سوراخ ہے اور وہ صرف دو سال ہی جی پائیں گی۔

 فلم ’آشا‘ میں کشور کمارکے گیت ’اینا مینا ڈیکا‘ نے مقبولیت کے کئی ریکارڈ قائم کیے۔ فوٹو: انڈین ایکسپریس

انہوں نے کہا،’کشور بھیا جلد ہی انہیں ہمارے گھر چھوڑ گئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ بیمار ہیں اور ان کو تیمارداری کی ضرورت ہے جب کہ ان کو سفر کرنا ہے، گیت گانے ہیں اور اس وجہ سے وہ مدھوبالا کو وقت نہیں دے پائیں گے۔ انہوں نے کہا، میں نے اپنی بہترین کوشش کی، لندن لے کر گیا مگر ڈاکٹر کہتے ہیں، وہ بچ نہیں پائیں گی۔ اس میں میری کیا غلطی ہے؟‘
کشور جی یہ ادراک نہیں کر پائے کہ مدھو بالا کو اس وقت ہی ان کے ساتھ کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ مدھو بالا کے اصرار پر دونوں ساحلِ سمندر کے کنارے ایک فلیٹ میں منتقل ہو گئے مگر مدھو بالا کو تنہائی اور ساحلوں سے آتی ہوا کا ہی ساتھ نصیب ہوا۔
مدھو بالا نے ڈاکٹروں کو غلط ثابت کیا، وہ نو سال زندہ رہیں اور انہوں نے سال 1969 میں وفات پائی، یوں اس محبت کا انجام بھی دردناک ہوا۔
کشور جی نے اگرچہ ہمیشہ یہ کہا کہ وہ مدھو بالا کے ساتھ آخری سانس تک رہے مگر….کیا کشور کمار ہرجائی تھے؟ کیا وہ اس پریم کہانی کے ولن تھے یا وہ ایک سچے پریمی تھے؟ ان سوالوں کا شاید ہی کبھی جواب مل سکے۔
کشور کمار جب مدھو بالا سے شادی کے بندھن میں بندھے تو ان کی پہچان ایک اداکار کے طور پر تھی اور ان کی توجہ بھی اداکاری میں ہی کامیاب ہونے پر تھی مگر مدھو بالا نے جب وفات پائی تو اس وقت تک کشور جی صفِ اول کے گلوکاروں میں شامل ہو چکے تھے اور ان کا شمار بالی ووڈ کے کامیاب ترین گلوکاروں میں کیا جانے لگا تھا۔
اور سال 1969 میں ریلیز ہوئی بورے والا کے راجیش کھنہ کی فلم ’ارادھنا‘ جس کے موسیقار تھے ایس ڈی برمن، شاعر تھے آنند بخشی اور گلوکار تھے کشور کمار۔
آگے بڑھنے سے قبل بتاتے چلیں کہ بالی ووڈ کے عہد ساز شاعر آنند بخشی کا جنم غیرمنقسم ہندوستان کے شہر راولپنڈی کے ایک پنچابی خاندان میں ہوا تھا، ان کے ہم عصروں میں شیلندر ان سے کچھ سینیئر اور دیوکوہلی کچھ جونیئر تھے اور دونوں ہی راولپنڈی سے تھے۔
اس فلم کے تمام گیت جیسا کہ، ’میرے سپنوں کی رانی کب آئے گی تو‘، ’کوڑا کاغذ تھا یہ من میرا‘ اور ’روپ تیرا مستانہ‘ بے پناہ مقبول ہوئے جس کے بعد کشور جی کی ایک گلوکار کے طور پر لافانی شہرت کا آغاز ہوا جب کہ راجیش کھنہ بالی ووڈ کے پہلے سپرسٹار بن کر ابھرے جنہیں کشور جی کی صورت میں ایک آواز مل گئی تھی۔ اور ’روپ تیرا مستانہ‘ ہی وہ گیت تھا جس پر کشور کمار کو پہلا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔

کشور کمار جب مدھو بالا سے شادی کے بندھن میں بندھے تو ان کی پہچان ایک اداکار کے طور پر تھی۔ فوٹو: کوئنٹ

 راجیش کھنہ کے لیے اگرچہ راہل دیو برمن (آر ڈی برمن) اس سے قبل سال 1967 میں ریلیز ہونے والی فلم ’بہاروں کے سپنے‘ کی موسیقی دے چکے تھے مگر اس فلم کے گیت محمد رفیع نے گائے تھے۔ سال 1970 میں فلم ’کٹی پتنگ‘ تو کامیاب ہوئی ہی بلکہ اس کے گیت بھی ہمیشہ کے لیے اَمر ہو گئے جن میں،
’یہ جو محبت ہے
یہ ان کا ہے کام
ارے محبوب کا جو
بس لیتے ہوئے نام
مر جائیں، مٹ جائیں
ہو جائیں بدنام‘،
’یہ شام مستانی
مدہوش کیے جائے
مجھے ڈور کوئی کھینچے
تیری اور لیے جائے‘
اور                
’پیار دیوانہ ہوتا ہے
مستانہ ہوتا ہے
ہر خوشی سے
ہر غم سے
بیگانہ ہوتا ہے‘
نے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔
اس فلم میں کشور کمار، آر ڈی برمن اور راجیش کھنہ پہلی بار یکجا ہوئے تھے۔ بے مثل موسیقار آر ڈی برمن ایس ڈی برمن کے صاحب زادے تھے جو پہلے ہی کشور کمار کے کئی کامیاب گیتوں کی موسیقی دے چکے تھے اور موسیقی کی دنیا کا ایک معبتر حوالہ تھے۔
کہا جاتا ہے کہ ’ارادھنا‘ کے لیے ایس ڈی برمن موسیقی ترتیب دے رہے تھے کہ وہ بیمار ہو گئے تو اس وقت نوجوان آر ڈی برمن نے اس فلم کے گیتوں کی موسیقی دی۔
کشور کمار نے اگرچہ دیو آنند پر فلمائے گئے بہت سے گیتوں کے لیے اپنی آواز دی مگر ‘ارادھنا’ کی ریلیز کے ساتھ ہی دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہو گئے اور کشور کمار کی لازوال شہرت کو دیکھتے ہوئے محمد رفیع بھی یہ کہہ اُٹھے، ’کیا میں ایک اچھا گلوکار نہیں رہا؟’
حیران مت ہوئیے، یہ الفاظ محمد رفیع کے ہی ہیں۔ سال 2017 میں محمد رفیع پر بنائی گئی دستاویزی فلم ’داستانِ رفیع‘ میں گلوکار مہندر کپور کے صاحب زادے روہن کپور نے ایک واقعہ سنایا جب محمد رفیع نے مہندر کپور کو کال کی اور کہا، ’مہندر یار، بڑا اُداس ہو گیا ہوں میں، تو ملنے آ۔‘
مہندر کپور اور محمد رفیع کی گہری دوستی تھی۔ دونوں پنجاب سے تھے، اور محمد رفیع نے اگر دلیپ کمار کے لیے گیت گائے تو مہندر کپور نے اداکار منوج کمار کو اپنی آواز مستعار دی۔
مہندر جب رفیع صاحب کے گھر پہنچے تو وہ اپنے گھر کے باغیچے میں تنہا بیٹھے تھے۔
روہن کپور نے یاد کرتے ہوئے کہا، ’رفیع صاحب کہتے ہیں ڈیڈی کو، مہندر کمال ہو گیا یار، وہ پروڈیوسر جو پیر کو ہاتھ لگاتے تھے، اب منہ دیکھ کے نکل جاتے ہیں۔ کیا میں ایک اچھا گلوکار نہیں رہا؟‘
روہن کپور کہتے ہیں، اس پر میرے والد نے کہا، ’اس کا میں کیا جواب دوں رفیع صاحب، وہ اگر آپ کے ساتھ ایسا کر سکتے ہیں تو وہ کسی کے ساتھ بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ اس کا آپ کے اچھے یا برے ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم ایسے ہی لوگوں کے ساتھ گزارہ کر رہے ہیں۔‘
روہن کپور کہتے ہیں، میرے والد نے رفیع صاحب کو تسلی دیتے ہوئے کہا، ’کوئی نہیں یار، ہو جاتا ہے۔‘
کشور جی نے راجیش کھنہ کے لیے 92 فلموں میں 245 گیت گائے جن میں سے زیادہ سدابہار ثابت ہوا۔ یہ کسی بھی گلوکار، اداکار کی جوڑی کا ایک ریکارڈ ہے۔ انہوں نے اس عہد کے دوسرے سپرسٹارز کے لیے بھی لاتعداد گیت گائے جن میں جتندر پر 202، امیتابھ بچن پر 131 اور دیو آنند پر 119 گیت فلمائے گئے۔

کشور کمار نے دیو آنند پر فلمائے گئے بہت سے گیتوں کے لیے اپنی آواز دی۔ فوٹو: سکرول

کشور کمار جب ہندی سنیما میں پس پردہ گائیکی میں اپنا جادو دکھا رہے تھے تو پاکستانی فلمی صنعت میں احمد رُشدی کا شمار کامیاب ترین پلے بیک سنگرز میں کیا جا رہا تھا اور سال 1966 میں ریلیز ہونے والی فلم ’ارمان‘ کے لیے گایا ان کا گیت ’کو کو کورینا‘ جنوبی ایشیا کا اولین پاپ گیت تھا۔
کشور کمار جن کی ایک دنیا دیوانی تھی، احمد رُشدی کی گائیکی کے مداح تھے جنہوں نے لندن کے رائل البرٹ ہال میں منعقدہ ایک کنسرٹ میں احمد رُشدی کا گیت گا کر ان کے لیے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔
کشور کمار نے اگرچہ 100 کے لگ بھگ فلموں میں کام کیا، ہدایت کاری بھی کی، گیت بھی لکھے مگر وہ آج ایک گلوکار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ بالی ووڈ کے ایسے واحد گلوکار ہیں جنہیں آٹھ بار فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا جب کہ وہ 28 بار فلم فیئر ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئے۔
کشور جی کی رومانی زندگی بھی اتار چڑھائو کا شکار رہی۔ مدھو بالا کے بعد انہوں نے اداکارہ یوگیتا بالی سے شادی کی۔ وہ عظیم اداکارہ گیتا بالی کی بھانجی ہیں۔ یہ شادی مگر چند ماہ ہی چل سکی جس کے بعد کشور جی نے اداکارہ لینا چنداورکر سے شادی کی۔
یہ 13 اکتوبر 1987 کی ایک اُداس شام تھی جب کشور کمار ایک کامیاب زندگی گزارنے کے بعد دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گئے۔ اس وقت ان کی عمر 58 برس تھی۔ لینا چنداورکر نے فلم فیئر میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے آنجہانی شوہر کے آخری لمحوں کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا،
’13 اکتوبر کی صبح وہ (کشور کمار) بظاہر مرجھائے ہوئے اور گہری نیند میں دکھائی دے رہے تھے۔ میں ان کے قریب گئی تو وہ جاگ گئے اور انہوں نے استفسار کیا، ’کیا تم خوف زدہ ہو گئی تھی؟  آج میری چھٹی ہے۔‘اس روز گھر پر ان کی بہت ساری ملاقاتیں تھیں۔ انہوں نے دوپہر کے کھانے پر مجھ سے کہا کہ وہ شام کو فلم ’ریور آف نو ریٹرن‘ دیکھیں گے۔ کچھ ہی لمحوں بعد مجھے ساتھ والے کمرے سے فرنیچر کھسکانے کی آواز آئی۔ میں جب کمرے میں گئی تو دیکھا کہ وہ بستر پر دراز ہیں۔ انہوں نے بے چینی سے کہا، ’میں کمزوری محسوس کر رہا ہوں۔‘ میں ڈاکٹر کو بلانے کے لیے گئی تو وہ غصے میں آگئے اور کہا، ’تم اگر ڈاکٹر کو بلائو گی تو مجھے دل کا دورہ پڑ جائے گا۔‘ یہ ان کے آخری لفظ تھے۔ ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھی اور وہ گہرا سانس لے رہے تھے۔ میں نے سوچا، وہ ہمیشہ کی طرح شرارت کر رہے ہیں مگر یہ اُن کی زندگی کا اختتام تھا۔‘
کشور کمار  بنگال سے تھے مگر پنجاب کے راجیش کھنہ یا دیو آنند کے کامیاب فنی کیریئر کا ذکر ان کے بغیر ادھورا ہے۔ موسیقی میں ان کا چلبلا انداز اور ان کے گائے رومانی گیت ہمیشہ سامعین کے کانوں میں رَس گھولتے رہیں گے کیوں کہ وہ بالی ووڈ کی فلمی موسیقی کی تابندہ روایت کا معتبر ترین حوالہ ہیں۔

شیئر: