Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب لتا منگیشکر نے ورلڈ کپ کی فاتح انڈین ٹیم کے لیے گایا

لتا منگیشکر 1983 کے کرکٹ ورلڈ کپ کی فاتح انڈین ٹیم کے ساتھ۔ (فوٹو: ہندوستان ٹائمز)
لتا منگیشکر (2022-1929) کو کرکٹ سے گہری دلچسپی تھی۔ ان کی زندگی کے اس پہلو پر بات کرنے کے لیے ہمارے پاس بہت سی باتیں ہیں لیکن ان دنوں ورلڈ کپ کا دور دورہ ہے تو سب سے پہلے اس سے جڑی ایک یاد سے بات شروع کرتے ہیں۔
سنہ 1983 کے ورلڈ کپ فائنل میں انڈیا نے پہلے دو ورلڈ کپ مقابلوں کی فاتح ویسٹ انڈین ٹیم کو ہرا کر جہاں شائقینِ کرکٹ کو حیران کیا وہیں اپنے ملک کے باسیوں کو فخرو انبساط کا موقع فراہم کیا۔
آج کے امیر انڈین کرکٹ بورڈ کے پاس ان دنوں اتنا بھی پیسہ نہیں تھا کہ جس دن ٹیم ورلڈ کپ جیتی، اس رات اسے کسی اچھے ریستوران سے کھانا کھلا سکے لہٰذا کھلاڑیوں نے پکاڈلی میں برگر بار سے پیٹ پوجا کی۔ کھلاڑیوں کو بورڈ کی طرف سے خاطر خواہ انعامی رقم نہ ملنے پر بھی مایوسی ہوئی۔
ٹیم کے شایانِ شان پذیرائی کے لیے راج سنگھ ڈونگر پور کو ایک ترکیب سوجھی۔ انہوں نے کھلاڑیوں کو نوازنے کے لیے لتا منگیشکر کی آواز سے کام لینے کا فیصلہ کیا۔ عظیم گلوکارہ کے سامنے دلی میں کنسرٹ کی تجویز رکھی گئی جس سے حاصل شدہ آمدن کھلاڑیوں میں تقسیم ہو جاتی۔ ایک تو کرکٹ کی شوقین دوسرے راج سنگھ ڈونگر پور سے دوستی۔ ان دو عوامل کی وجہ سے لتا نے کنسرٹ کے لیے فوراً ہامی بھر لی۔
دہلی میں قومی ٹیم کی موجودگی میں لتا نے آواز کا جادو جگا کر سماں باندھ دیا۔ کنسرٹ بہت کامیاب رہا۔ یافت بھی خوب ہوئی۔ ہر کھلاڑی کو ایک ایک لاکھ روپیہ ملا۔ یہ اس زمانے میں بڑی رقم تھی۔ بورڈ کی طرف سے کھلاڑیوں کو دی گئی انعامی رقم سے کہیں زیادہ۔ انڈین ٹیم کے کپتان کیپل دیو نے کہا کہ انہوں نے زندگی میں پہلی دفعہ اتنی بڑی رقم دیکھی۔ لتا نے بڑا پن دکھایا اور لاکھوں کی آمدن سے ایک دھیلا بھی نہیں لیا۔

سچن تندولکر گلوکارہ لتا منگیشکر کو ’آئی‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ (فوٹو: دی ہندو)

ڈان بریڈمین کی دستخط شدہ تصویر

لتا کی کرکٹ میں دلچسپی کی جڑیں گہری تھیں۔ ہریش بھیمانی نے لتا کی سوانح ’ان سرچ آف لتا منگیشکر‘ کے عنوان سے لکھی جس کا اردو ترجمہ لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان نے ’لتا منگیشکر کی تلاش میں‘ کے نام سے کیا۔ اس سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو :
’دینا ناتھ (لتا کے والد) کو کرکٹ کا اتنا شوق تھا کہ ’بلونت سنگیت منڈلی‘ کی اپنی ٹیم تھی۔ وہ نہ صرف خود کرکٹ کھیلا کرتے تھے بلکہ مشہور کھلاڑیوں کو دوستانہ میچ کھیلنے کے لیے بھی مدعو کیا کرتے تھے...لتا کو کرکٹ سے کتنی دلچسپی ہے، اس کا علم تو آج ہر کسی کو ہے!
نسرین منی کبیر نے لتا کا طویل انٹرویو کیا جو کتابی صورت میں ’لتا منگیشکر۔۔۔ ان ہر اون وائس‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس سے لتا کے کرکٹ سے شغف کے بارے میں دلچسپ معلومات ملتی ہیں۔ ان کے پاس سر ڈان بریڈمین کی دستخط شدہ تصویر تھی۔ سابق انڈین کپتان وجے ہزارے ان کے فیملی فرینڈ تھے۔ ونو منکنڈ سے بھی قریبی تعلقات تھے۔ ان کے والد، والدہ، بھائی اور بہن سب کرکٹ کے رسیا۔ ٹیسٹ میچ ہوتا تو لتا ریکارڈنگ سے بریک لے کر فیملی کے ساتھ میچ دیکھنے جاتیں۔
لتا نے بتایا کہ ان زمانوں میں تماشائی خاموش رہتے تھے۔ انہوں نے انٹرویو میں اس زمانے کو بھی یاد کیا جب ٹی وی کے بجائے ریڈیو کمنٹری میچ سے باخبر رہنے کا وسیلہ تھی۔
لتا نے اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کے نام بھی گنوائے جن کا کھیل دیکھنے کا انہیں موقع بھی ملا: گیری سوبرز، روہن کہنائی، رچی بینو، رلے لنڈوال، ایلن ڈیوڈسن، نیل ہاروے، مشتاق علی، ونو منکنڈ، وجے مرچنٹ،پٹودی، سنیل گواسکر اور تندولکر۔

لتا منگیشکر کے پاس سر ڈان بریڈمین کی دستخط شدہ تصویر تھی۔ (فائل فوٹو: نیو ساؤتھ ویلز لائبریری)

’تو جہاں جہاں چلے گا میرا سایہ ساتھ ہو گا

سچن تندولکر کے دل میں لتا کی بڑی محبت ہے۔ وہ انہیں ’آئی‘ کہہ کر پکارتے، یہ لفظ مراٹھی میں ماں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ تندولکر نے ان کی 90 ویں سالگرہ پر ویڈیو پیغام ریکارڈ کروایا جس میں انہیں شبھ کامنائیں دیں اور باقاعدگی سے ان کے گانے سننے کا ذکر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ لتا نے ان کے لیے اپنا گیت ’تو جہاں جہاں چلے گا میرا سایہ ساتھ ہو گا‘ گایا اور اس گانے کا اپنے ہاتھ سے لکھا متن فریم کروا کر دیا۔
لتا بھی تندولکر پر بڑی مہربان تھیں۔ انہیں ہمیشہ بیٹوں سا پیار اور آشیرباد دی۔ ان کے کھیل کو سراہا۔
سنہ 2014 میں تندولکر کو انڈیا کا سب سے بڑا سول ایوارڈ بھارت رتنا مل گیا، انہیں یہ ایوارڈ دینے کا مطالبہ کرنے والوں میں ایک توانا آواز لتا کی تھی۔

لتا اور گواسکر کی پہلی ملاقات

سنیل گواسکر 60 برس کے ہوئے تو اس مناسبت سے دیباشیش دتہ نے ’سنیل گواسکر کرکٹ لٹل ماسٹر‘ کے نام سے کتاب مرتب کی جس میں کرکٹ سے وابستہ معروف شخصیات کے گواسکر کے بارے میں تاثرات تو ہیں ہی کرکٹ سے باہر کی چند نامور ہستیوں کی آرا بھی شامل ہیں جن میں لتا کا نام نامی بھی ہے۔
لتا نے گواسکر کے بارے میں خیالات کا اظہارخوبصورت پیرائے میں کیا۔ گواسکر کی عمر اس وقت 16 17 برس تھی جب بمبئی کے بریبورن سٹیڈیم میں وہ ان سے پہلی دفعہ ملیں۔ لتا کے قریبی دوست گراہم ڈیوڈ نے انہیں گواسکر سے یہ کہہ کر متعارف کروایا: ’اس نوجوان کرکٹر سے ملو جو یقیناً ایک دن عظیم کھلاڑی بنے گا۔
یہ ملاقات دونوں شخصیات کے مستقبل میں گہرے تعلقات کی تمہید ثابت ہوئی۔ لتا نے گواسکر کو فیملی فرینڈ قرار دیا۔

لتا منگیشکر کے دل میں سنیل گواسکر کے لیے خاص جگہ تھی۔ (فوٹو: دی ٹائمز آف انڈیا)

ان کے خیال میں انہوں نے وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ لی جب کہ وہ مزید چند سال کرکٹ کھیل سکتے تھے۔ ان کی گواسکر سے ملاقات ہوتی تو وہ یہ سوال ضرور اٹھاتیں: تم ریٹائر کیوں ہوئے؟، آخری بار یہ سوال کیا تو گواسکر نے کہا ’ہمارے پاس آج سچن ہے، کیا آپ اس کی بیٹنگ سے لطف اندوز نہیں ہوتیں؟‘ اب سچن ہے نا۔ بالکل سچن تو ہے‘، لتا نے جواب دیا۔
لتا منگیشکر کے کئی اور کرکٹروں سے بھی قریبی تعلقات تھے لیکن گواسکر کے لیے ان کے دل میں خاص جگہ تھی جس کی وجہ کرکٹ میں ان کے کارنامے نہیں بلکہ ان کا اچھا انسان ہونا ہے۔

دلیپ وینگسارکر کو کھانے کی دعوت

لتا کھلاڑیوں کی کامیابیوں پر خوش ہوتی تھیں۔ سنہ 1986 میں دلیپ وینگسارکر نے لارڈز میں مسلسل تیسری سینچری کی تو اس اعزاز کی خوشی میں لتا نے انگلینڈ میں انہیں اپنے ہاں کھانے کی دعوت دی۔ چند اور انڈین کھلاڑیوں کو بھی مدعو کیا۔لارڈز کرکٹ گراؤنڈ کے قریب ہی ان کی رہائش گاہ تھی۔ اس عزت افزائی کی یاد ہمیشہ وینگسارکر کے ساتھ رہی۔
انڈین کھلاڑیوں سے لتا کی میل ملاقات کی کہانیوں کے بعد اب ہم آپ کو دو پاکستانی کھلاڑیوں سے ان کے ربط ضبط کا قصہ سناتے ہیں۔   

’نمستے، میرا نام لتا منگیشکر ہے

سنہ 1960 میں بمبئی ٹیسٹ سے پہلے حنیف محمد کے پاؤں زخمی تھے لیکن ٹیم کی خاطر انہیں میدان میں اترنا پڑا۔ حنیف محمد نے اپنی کتاب ’پلیئنگ فار پاکستان‘ میں لکھا ہے کہ ایک صبح ناشتے کے بعد وہ کرکٹ کلب آف انڈیا میں اپنے کمرے میں ٹیپ ریکارڈر پر نور جہاں کے گانے سن رہے تھے کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ انہوں نے اندر آنے کو کہا۔ اب جو دیکھتے ہیں تو کمرے میں ماتھے پر بندیا سجائے سفید ساڑھی میں ملبوس خاتون داخل ہوئی اور کہا: ’نمستے، میرا نام لتا منگیشکر ہے۔

لتا منگیشکر کا انگلینڈ خاص طور سے برمنگھم جانا ہوتا تو ان کی مشتاق محمد اور بشن سنگھ بیدی سےملاقات ہوتی۔ (فوٹو: محمود الحسن)

کمرے میں نور جہاں کی آواز گونج رہی تھی، لتا نے بتایا کہ وہ انہیں استاد مانتی ہیں۔ حنیف محمد نے بتایا کہ وہ ان کے (لتا) بہت بڑے فین ہیں۔ لتا کے علم میں جب یہ بات آئی کہ ان کی والدہ اور ماموں بمبئی میں ہیں تو انہیں ریکارڈنگ سٹوڈیو میں آنے کی دعوت دی۔

’100 سال پہلے مجھے تم سے پیار تھا

حنیف محمد کے چھوٹے بھائی اور ٹیسٹ کرکٹر مشتاق محمد بھی اس دورے میں پاکستان ٹیم کا حصہ تھے۔ ان کی کتاب ’انسائیڈ آؤٹ‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی والدہ، ماموں اور ساتھی کرکٹرز انتخاب عالم اور محمد فاروق کے ساتھ سٹوڈیو گئے۔ لتا نے بڑی محبت سے ان کا سواگت کیا۔ ان کی والدہ کو بڑی عزت دی۔ ان کے پاؤں میں ناریل پھوڑ کر خوش آمدید کہا۔
مشتاق محمد نے لکھا کہ اس دن وہ محمد رفیع کے ساتھ یہ گانا ’سو سال پہلے مجھے تم سے پیار تھا،آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا‘ ریکارڈ کروا رہی تھیں۔
مشتاق محمد کاؤنٹی کرکٹ کھیلنے کے سلسلے میں انگلینڈ میں مقیم رہے۔ بعد میں انہوں نے وہاں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ لتا کا انگلینڈ خاص طور سے برمنگھم جانا ہوتا تو ان کی مشتاق محمد اور بشن سنگھ بیدی سےملاقات ہوتی۔ 

لتا کی عالی ظرفی

لتا کا کھلاڑیوں سے میل جول جہاں کرکٹ سے ان کی دلچسپی ظاہر کرتا ہے وہیں اس سے ان کی عالی ظرفی کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ وہ عظمت کے کسی احساس کے بغیر کرکٹروں کی خوشیوں میں شریک ہوتی تھیں۔ ان کے لیے عملاً کچھ کرنے سے بھی انہیں انکار نہ تھا، سامنے کی مثال وہ کنسرٹ ہے جس کا ذکر ہم نےمضمون کے پہلے حصے میں کیا ہے۔

شیئر: